امریکی ہفت روزہ "نیوز ویک" نے صد ر مکسن کے ساتھ چین جانے ویلے امریکی اخبار نویسوں کا ذکر کرتۓ ہوۓ لکھا: " یہ لوک جو کچھ ہمیں بتاتے ھیں وہ ایک خواب معلوم ہوتا ہے۔ نا ممکن نظر آتا ہے' بھلا روۓ زمین پر کوئی ایسا ملک بھی ہو سکتا ہے جس مٰیں جرائم نہ ھوں' جنسی امراض ناپید ہوں' گندی بستیاں اور جھگیاں نہ ھوں' فضا اور بانی مسموم نہ ہو' عادی شراب ضور اور نشے باز نہ ہوں' حتیٰ کہ چھوٹے بڑے' افسر اور ماتحت کا امتیاز بھی نہ ہو۔"
بے شک جب تک اپنی آنکھوں نہ دیکھۓ' یہ یقین نییں آتا کی کوئی ملک ترقی بھی کر رہا ہوو اور ان آلائشوں سے بھی محفوظ ہو جن کا ذکر اوپر آیا ہے۔ جہاں چور نہ ہوں اور لوگوں کو گھروں میں تالے نہ لگانے پڑتے ہوں' گرانی نہ ہو' ٹھاہ ٹھاہ فلمییں نہ ہوں اور ملاوٹ نا ہو۔ ٹریفک کے حادثے نہ ہون اور جھوٹی اشتہار بازی نہ ہو۔
کینٹن
قدیم تاریخ کا امین اور انقلابی تحریکوں کا گہوارہ ہمارے سامنے حد نظر تک پھیلا تھا۔ یہیں مغربیوں کے قدم پہلے آۓ۔ یہہں چین کے ایک باہمت محب وطن عہدیدار نے 1839ء میں افیم کی وہ بیس ہزار پیٹیاں بر سرعام نزر آتش کر دیں جو ایسٹ انڈیا کمپنی کے تاجر چینیوں کو افیمی بنانے کے لیے زپردستی لانے پر مصر تھے اور جس سے مشہور جنگ افیم کا آغاز ہوا جس میں چین کی شکست کے بعد انگریزوں' امریکییوں اور دوسرے مغربی ممالک کے قدم چین میں جم گۓ اور یہیں ملک کو لوٹنے' کھسوٹنے اور من مانی کرنے کا موقع ملا۔ یہیں 1927ء میں چیانگ کا ئی شیک نے ہزاروں انقلابیوں کو ایک دن میں تہ تیغ کر دیا اور کینٹن کی سڑکیں مدتوں خون شہیداں سے رنگیں رہیں۔ اسے شہر میں عہد رسالت کے ایک غازی کے نقوش پا بھی ثبت ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہاں رسول اللہﷺ کے ایک صحابی ابی وقاص کا روضہ مبارک ہے جنہوں نے مشرق بعید کے اس دیار دور میں اسلام کا پودہ کاشت کیا۔
بقیہ ائندہ کے بلاگ میں انشا اللہ۔