انسان کو سوچنا چاہئے کہ جو پریشانی آئی ھے۔ وہ دنیا کی سب سے بڑی پریشانی نہیں ھے۔اس سے بڑی پریشانی بھی آ سکتی تھی اور اگر کسی محرومی سے دوچار ہونا پڑا ھے تو دوسری طرف کدا کی عنایت بھی تو بے اندازہ ہیں۔ ایک محرومی کو لے کر بیٹھے رہنے کی جگہ کیا یہ درست نہیں کہ خدا کا شکر ادا کرنے کی طرف لگایا جاۓ۔ دل میں جتنی شکر گزاری ہو گی اتنا ہی اضطراب کم ہو گا اور سکون بڑھتا جاۓ گا۔
ایک شخص نے کسی کے آگے ہاتھ پھیلانا اور اپنا دکھڑا رویا کہ بلکل مفلس ہوں۔ اس شخص نے کہا کہ دیکھو کہ میں تمہیں ایک لاکھ روپے دینے کو تیار ہوں مگر تم صرف اتنا کرو کہ اپنی ایک آنکھ نکال کر مجھے دے دو۔ مانگنے والے کو اس پر بہت غصہ آیا اور اس نے کہا کہ میں یہ کام ہر گز نہیں کروں گا۔ اس شخص نے کہا کہ اچھا آنکھ نہ دو، ایک ہاتھ ہی دے دو۔ مانگنے والے نے شدت سے انکار کیا۔ وہ شخص کہنے لگا ، چلو تو پھر ایک پاؤں ہی دے دو۔ مانگنے والے پھر نہایت ہی غصیلے انداز میں انکار کر دیا۔ پھر وہ شخص ہر عضو کا نام لیتا گیا کہ یہ ایک عضو مجھے لاکھ روپے میں دے دو۔ مگر مانگنے والا انکار ہی کرتا گیا۔اس پر اس شخص نے کہا دیکھو تمہارے پاس لاکھوں کا مال ھے پھر بھی تم کہتے ہو میں مفلس ہوں ۔ آخر تمہارا ہر عضو لاکھ سے زیادہ قیمت کا تھا جبھی تم نے لاکھ میں دینا پسند نہ کیا۔
حقیقت یہ ھے کہ یہ بنیادی دولتیں اللہ نے انسان کو اس کثرت سے دی ہوئی ہیں کہ انسان ان کی طرف توجہ ہی نہیں دیتا ھے۔ جب ان میں سے کوئی چھن جاتی ھے ۔ تو اس وقت ان کی قدر معلوم ہوتی ھے۔اور پھر ہم روتے ہیں کہ جن محرومیوں کو ہم روتے ہیں ان کی ان نعمتوں کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں جو اللہ نے ہمیں دی ہوئی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاری ھے۔