پیار سے مار سے نہیں۔۔۔1۔۔۔

Posted on at




جولائی 2012 میں کراچی سے تعلق رکھنے والی چار سالہ بچی انعم کو اسکی ٹیوشن پڑھانے والی استانی نے اس وقت تشدد کا نشانہ بنایا جب اس نے تحریری مشق میں حصہ لینے سے انکار کرتے ہوئے کھیلنے کے لئے باہر جانے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ استانی نے حکم عدالی کی سزا کے طور پر پنسل کی نوک سے اس بچی کی کمر پر لفظ اے کندہ کیا اور اس کا بازو توڑ دیا تھا۔

     


ہری پور میں پیش اانے والے ایسے ہی ایک اور واقعے میں ایک مدرسہ کے استاد نے تیرہ سالہ بچے کو اپنے موبائل فون کی مبینہ چوری کے الظام میں سزا دی۔ وقاص خان کو باندھ کر ڈنڈے اور گرم استری سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا جس سے اس کے زخموں اور جلنے کے نشانات پڑ گئے تھے۔ مقامی  جرگے نے لڑکے کے والد کواس بااثر عالم کے خلاف ایف ٓای ٓار درج کرانےسے روک دیا تھا۔
ان واقعات سے ثابت ہوتا ہے کہ اسکول جانے والے بے حد کم سن بچے بھی تعلیمی اداروں میں جسمانی سزا سے محفوظ نہیں ہے اور معاشرے کی جانب سے ڈسپلن کی خلاف ورزی پر تششدد کی اجازت کے باعث ایسا کرنے والے قانون کی گرفت سے بچ جاتے ہیں۔


یہ اسکولوں اور مدراس میں ہونے والے ہزاروں واقعات میں سے صرف دو واقعات ہیں۔ بچوں کے ساتھ اتنا ظلمانہ سلوک ان پر کئی جسمانی اور جزباتی اثرات مرتب کرتا ہے اور بعض معاملات میں اس کا نتیجہ بچے کی موت کی ضرورت مین بھی نکل سکتا ہے۔
بچوں پر گھروں، اسکولوں اورکام کرنے کے مقامات  پر ہونے والے جسمانی تشدد کے پھلائو کو جاننا بے حد مشکل کام ہے۔ صرف شدید تشدد کے واقعات ہی پولیس یا میڈیا میں رپورٹ ہوتے ہیں۔

 

اس کی کم حساس شکلوں کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے اور ایسا کرنے کے خلاف  کاروائی کا کوئی امکان نہیں ہوتا۔ اگر تشدد کا نشانہ بننے والے بچے کے والدین پولیس میں شکایت درج کراتے ہیں تو ایسے زیادہ تر کیسزکا غیر رسمی فیصلہ کر دیا جاتا ہے اور اس کا ارتکاب کرنے والے شخص کے خلاف شکایت کی عدالت میں شنوائی کا بہت کم امکان ہوتا ہے۔ اس جسمانی سزا دینے کے رحجان کی حوصلہ افزائی  ہوتی ہے اور یہ عمل قانونی خوفکے بغیر جاری رہتا ہے۔  

 



About the author

eshratrat

i really like to write my ideas

Subscribe 0
160