اخلاقی قدروں اور ذیانت وامانت کا جس طرح ہماری قومی زندگی سے دیس نکلا ہوا ہے اور قومی وسائل کو جس لوٹا اور کھلے عام جس طرح استعمال کیا جا رہا ہے اس کے مناظر اور مظاہرے دیکھ دیکھ کر لوگوں کی آنکھیں پتھرا گئی ہیں نیک و بدکی تمیز ختم ہے سچ اور جھوٹ کا معیار ملیامیٹ ہے عمل نہ پیداور تقریریں خطے اور اعلانات کی پھرمار ہے انسان کو پرکھنے کی معیار موجود نہیں رہے جس محفل میں بیٹھیں وہاں قومی زندگی کی زبوں حالی کا تذکرہ ہوتا ہے ۔
ہر شخص اس بحث میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا ہے اوریہ ثابت کرتا ہے اس کے علاوہ سارا معاشرہ کرپٹ ہے آپ نے ابھی تک ایک ایسا نہیں دیکھا ہوگا جو اپنے آپ کو برا کہتا ہو یا اپنی غلطی تسلیم کرتا ہو اخلاقیات پر سب سے زیادہ گاڑھی اور موثر تقریریں سیاستدان اور بیوروکریٹ کرتے ہیں ۔ اہل مذہب ومدرسہ تو ہیں ہی دنیائے خطابت کے شیر عام شہری حیران و پریشان ہے اگر حکومت ان سیاستدان ، بیوروکریٹ ،اہل مذہب و مدرسہ سب نیک پاک اور پاکیزہ پوتر ہیں تو پھر خراب کون ہے ، مزدور ،کسان ، غریب ، وغربا عوام الناس ، یہی قصوروار ہیں یعنی شکاری فرشتہ اور شکار مجرم ہے ۔
کھربوں کے مالک کروڑوں کی کوٹھیوں میں رہتے ہیں یہ لوگ انامات ربانی سے لطف اندوز ہونے کے بعد بھی پاکستان کی زبوں حالی اور ملک میں پائی جانے والی بددیانتی وبدعنوانی کا رونا روتے ہوئے نظر آتے ہیں اس عالم میں جب جھوٹ کی حکمرانی زبردست طریقے پر قائم ہو چکی ہو ہر لٹیرا اپنی تجوریاں بھرنے کے بعد پاکستان اور اس ملک کے غریب غربا کو کوستا نظر آئے تو حساس انسانوں میں کا دماغ نہ الٹے اس عالم میں پھر صاحب شعور انسانوں میں ایک رویہ یہ پیدا ہوتا ہے جسے کبلیت کہتے ہیں ۔
یعنی ہر چیز سے نفرت کرنا ہر چیز کو برا سمجھنا ہر وقت چیخنا چلانا اور کاٹ کھانے کو دوڑنا اس صورتحال سے بچنے کے لئے خدا کی مدد کی ضرورت پڑتی ہے آدمی صوفی بن جائے میں نے ایک دن ایک دوست سے پوچھا اس معاشرے میں کھرے اور کھوٹے کی پہچان کا کیاطریقہ ہوگا ہم کس طرح پتہ چلائینگے کی یہ آدمی جو دیانت قومی خدمت حب الوطنی پر دھواں دار لیکچر دے رہا ہے خود کتنا دیانتدار ہے اس نے کہا یہ کون سا مشکل کام ہے پوچھا مثال کے طور پر کہا ایک فیتہ لے لیں میں نے کہا ، فیتے سے کیا کروں اس نے کہا اس تقریر باز دیانتدار کے گھر کا رقبہ جا کر ناپیں میں نے کہا اس سے کیا ہوجائےگا اس نے کہا پتہ چل جائے گا کہ قوم کے درد میں مبتلا یہ شخص خود کتنے کنال کی کوٹھی میں رہتا ہے میں نے پوچھا اسکے بعد اس نے کہا آسان بات ہے یہ دیکھوکہ اس کے اندر کتنی سرکاری اور غیر گاڑیاں بمعہ ڈرائیور اور پٹرول کی کھڑی ہیں ۔