اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ غذائی اعتبار سے کوئی بھی دال، گوشت کا متبادل نہیں ہو سکتی۔ اگر گوشت میسر نہ ہو یا اسے خریدنے کی استطاعت نہ ہو تو دال سب سے بہتر چیز ہے۔ غذائیت کے لحاظ سے سب سے اچھی دال مسور کی دال ہے اور دنیا کے ہر ملک میں اس دال کو کسی نہ کسی صورت میں پسند کیا جاتا ہے۔ مسور کی دال میں لحمیات، فاسفورس، فولاد اور وٹامن بی کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ مسور کی دال کو بھگو کر تلنے کے دوران نمک، مرچ اور کھٹائی لگا کر لفافوں میں بند کر کے سفری غذا کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
مسور کا پودا ڈیڑھ فٹ تک بلند ہوتا ہے۔ پاکستان میں مسور کی دال کی جنگلی قسم بھی ملتی ہے۔ جو کہ خودرو ہے۔ اس کا دانہ چھوٹا اور گول ہوتا ہے۔ جبکہ عام دال کا دانہ چپٹا اور گول ہوتا ہے۔ اس کا کھانا دل کو نرم کرتا ہے۔ آنکھوں سے پانی کے اخراج میں مدد کرتا ہے اور غرور کو کم کرتا ہے۔ بڑھاپے کے مسائل کو کم کرنے میں فائدہ دیتی ہے۔ مسور کی دال میں ٹھنڈک ہے اور عضلات میں بندش پیدا کرتی ہے۔ اس کا کھانا بصارت کو کمزور کرتا ہے۔ معدہ کے لیے بیکار ترین ہے۔ پیٹ میں نفخ پیدا کرتی ہے۔
اس کا مطبوخہ پانی چیچک میں لگانا اور پلانا مفید ہے۔ اس کے نقصانات سے محفوظ رہنے کا طریقہ یہ ہے کہ اسے چقندر کے ساتھھ پکایا جائے دوسرا یہ کہ اس میں زیتون کا تیل اور سماق کے پتے شامل کئے جائیں تو صحت کے لیے نقصان دہ نہیں ہے۔ جنگلی مسور کو صرف دوا کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ مسور کی ایک قسم ملکہ مسور کے نام سے بھی ملتی ہے۔ یہ خاکی رنگ کا بڑا اور چوڑا دانہ ہوتا ہے۔ اس کا ذائقہ عمدہ ہوتا ہے۔ دیر سے گلتی ہے۔ دھلی مسور دال کھانے سے قبض پیدا ہوتی ہے۔
اگر چھلکوں سمیت ابال کر کھائی جائی تو قبض کشا ہے۔ چھلکے اور دانہ کے درمیان حیاتین ب پائی جاتی ہے۔ جسے مشینوں میں چمکانے اور صاف کرتے وقت یہ سب ضائع ہو جاتے ہیں۔