میلے سے واپس آ کر لوگ بتوں کی پوجا کے لئے اپنے مندر گئے تو توڑ پھوڑ کا یہ عالم دیکھ کر غصے میں آ گئے. کہنے لگے کہ یہ کام ابراھیم نامی ایک نوجوان کا ہی ھو سکتا ہے. وہی ہمارے بتوں کو برا کہتا ہے. جب ابراھیم علی سلام کو وقت بادشاہ کے دربار میں پیش کیا گیا تو آپ نے بے مثال جرات کا مظاہرہ کیا اور بتوں کی پوجا کو غلط اور نہ جائز قرار دے دیا
نمرود خود کو خدا مانتا تھا. اس نے پوچھا کہ تمہارا رب کون ہے؟؟
تو ابراھیم علی سلام نے جواب دیا کہ جس کے اختیار میں زندگی اور موت ہے وہ میرا رب ہے.
نمرود نے کہا کہ زندگی اور موت تو مرے ہاتھ میں بھی ہے
آپ علی سلام نے فرمایا کہ میرا رب سورج مشرق سے نکالتا ہے اور مغرب میں غروب کرتا ہے. تو اسے مغرب سے نکال کر دکھا.
یہ سن کر وہ خدا کا منکر غصے میں آ گیا اور آپ علی سلام کو زندہ جلانے کا حکم دے دیا. بادشاہ کے حکم کی تعمیل ہوئی اور ایک آگ جلائی گئی. روایات میں آتا ہے کہ جب تمام لکڑیاں انگارے بن گئے تو گرمی کی شدت سے کوئی انسان میلوں دور تک کھڑا نہیں رہ سکتا تھا. اس لئے ایک گوپیا تیار کیا گیا اور اس میں آپ علی سلام کو بیٹھا کر زوردار چکر دے کر آگ میں پھینکا گیا جس کا کافر تماشا دیکھنے کے لئے دور دور سے جمع ھو گئے تھے
الله کی رحمت نے جوش مارا اور آگ کو کو حکم دیا کہ سلامتی والی بن جا. آپ علی سلام کافی دن تک سکون کے ساتھ گزارتے رہے. الله نے اپنے خلیل کی قربانی کی قدر کی اور کافر ہکا بکا رہ گئے. اور ابرھیم علی سلام الله کی اس آزمائش میں کا،کامیاب و کامران ثابت ہوے.....!
شکریہ
بلاگ رائیٹر
نبیل حسن