اس مکالمے کی ابتدا حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ کے دور کے ایک خوبصورت واقعے سے شروع کرتےہیں۔ اس زمانے میں مستورات اور مرد حضرات مسجد میں جا کر نماز پڑھتے تھے۔ واقع کچھ یوں ہے۔ ایک عورت جسے اللہ نے شکل و صورت سے نواز رکھا ہے، وہ نماز پڑھنے آتی ہے ایک نوجوان راستہ روک کر کھڑا ہو جاتا ہے۔ دو چار پانچ مرتبہ اس عورت نے اس نوجوان کی مزاہمت کو دیکھا ایک دن رک کر پوچھا تجھے کیا مسلہ ہے، اس نوجوان نے اپنی قلب کی خواہش کا اظہار کیا اور کہا کہ میں تیرا متوالہ ہوں ، چاہنے والا ہوں، تیری اک اک ادا پہ سو سو جان سے قربان ہونے کو تیار کھڑا ہوں۔ اس عورت نے کہا کہ ایک شرط پوری کر دے میں تیری ہر خواہش ہر بات مانو گی۔ اس نے کہا جلدی کہو ، میں تمھارے لئے آسمان سے تارے بھی توڑ لاؤ گا۔ عورت نے کہا میری کوئی لمبی خواہش نہیں ہے۔ ایک ہی میری آرذو ہے کہ چالیس دن تک عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہُ کے پیچھے نمازیں پڑھ لو اس کے بعد جو کہو گے میں مانے کے لئے تیار ہوں۔ نوجوان نے کہا یہ کون سی مشکل بات ہے ، اس نے شرط رکھ دی کہ یہ تو بڑا آسان ہے اگر اس ے تو مل جاتی ہے تو میرے لئے چالیس دنوں کی نمازیں کہہ رہی ہے میں تو چالیس سالوں کی نمازیں پڑھنے کے لئے تیار ہوں۔ خیر چالیس دن مسلسل نمازیں چلتی رہی۔ جب چالیسویں دن کی نماز پڑھ کا وہ نوجوان واپس جارہا ہے تو اسی چگہ پہ وہی عورت حسب وعدہ کھڑی ہے یہ نوجوان نظر جھکا کے گزرنے لگا اس نے کہا کہ میں وعدے کے مطابق کھڑی ہوں تو اس کے جواب میں نوجوان نے کہا کہ اب تیرے ضرورت نہیں رہی ۔۔۔۔ عمر نے دل کا تعلق رب سے جوڑ دیا ہے۔
اور آج دور حاضر میں مسلمان مساجد میں امام حضرات کے پیچھے نمازیں پڑھتے ہیں اور مستورات بھی گھروں میں نمازوں کا اہتمام کرتی ہیں۔ صرف چالیس دن نہیں بلکہ نماز بڑھنا ہماری زندگی کا مسلسل اوڑھنا بجھونا ہے پھر بھی اس کے باوجود ہماری زندگیوں میں تبدیلی نہیں آتی ، اللہ تبارک و تعالی کے حضور حاضر ہونے کے باوجود ہماری زندگیاں ہر قسم کی برائیوں سے بھری پڑی ہیں اور بے سکون ہیں۔ زندگی تیزی سے گزر رہی ہے اور اس میں کوئی برکت نہیں، جس طرح بن کام اور بن مقصد گزر رہی ہے۔ ہماری زندگیاں قناعت پسندی سے عاری جو بدتیرین معاشرتی تنزلی کی جانب گامزن ہیں۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہُ کا زمانہ ، اس نوجوان کا ان کے پیچھے نمازیں پڑھنا گویا قرآن دل سے نکلا زبان کے ذریعے دل میں پیوست ہو گیا اور دل کی دنیا ہی بدل گئ۔
کاش وہ لوگ دوبارہ منشا شعور پہ آ جائے اور وہ لوگ دوبارہ مصلوں کی زینت بن جائے جن کے لبوں سے جب قرآن نکتا ہے تو فرشتے بھی آفرین آفرین کرتے ہیں اور قرآن دلوں پہ اثر کرتا ہے اور دلوں کے زنگ اترتے ہیں اور روحوں کو قرار ملتا ہے۔ آج مسلمانوں کے لئے آزمائش کے مراحلے تاویل سے تاویل تر ہوتے جا رہے ہیں۔ اس کا ایک سبب یہ ہے مسلمانوں کے دور حاضر کے جو رہنما ہیں وہ درد کی دولت سے خالی ہیں۔