جیسے کہ پہلے حصے میں ہم بات کر رہے تھے کہ انڈیا نے پاکستان پے حملہ کر دیا تھا تو ان کی منصوبہ بندی میں یہ بھی شامل تھا کہ کراچی کو پاکستان کے باقی حصوں سے رابطے کو ختم کر کے اس کو پاکستان سے علحیدہ کر دیں گے. اس سلسلے میں انڈین فضائیہ کو یہ اہم کام سونپا گیا. جب انڈین فضائیہ کے جنگی جہاز اس پل پر حملہ کرنے آئے تو وہ کافی کوشش کے باوجود اس پل کو جو کہ دریاۓ سندھ پر تعمیر کیا گیا ہے کو تباہ نہ کر سکے.
اس دوران ان کے ٣ جنگی جہاز دریا میں گر گئے اور ٢ جہازوں کے پائلٹس کو سخت زخمی حالت میں گرفتار کر لیا گیا. جب ان سے اس بارے میں پوچھا گیا کہ انتہائی کوشش کے باوجود کیوں نہ نقصان پہنچا سکے تو ان کہ کہنا تھا کے دور سے ہمیں یہ پل نظر آتا تھا جب ہم پاس آتے تھے تو یہ غائب ہو جاتا تھا اور اس کی جگہ ایک نورانی صورت والے بزرگ سخت غصّے کی حالت میں ہمیں گھور رہے ہوتے تھے تو ہم سے نشانہ خطا ہو جاتا تھا اور حملہ کرنے کی ہمّت نہیں رہتی تھی.
تو اس طرح ایک بزرگ نے پاکستان کو ایک بہت بڑے نا قابل تلافی نقصان سے بچا لیا. ان کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انگریز جب برّصغیر میں ریلوے کا جال بچھا رہے تھے اور انہوں نے جب اس علاقے میں کام شروع کیا تو حضرت جی کا مزار ریل کی پٹری کے راستے میں آتا تھا. انہوں نے اس کو منہدم کرنے کا سوچا اور پٹری کو مزار تک لا کر شام ہونے کی وجہ سے کام کل پر ملتوی کر دیا.
اگلی صبح جب وہ کام کی جگہ پر ائے تو ریلوے کی کئی ٹن وزنی پٹری جو کہ وہ کل شام تک مکمل کر کے گئے تھے کافی دور تک بکھری پڑی تھیں. لوگوں کے مانا کرنے کے باوجود جب انہوں نے دوبارہ کام شروع کیا اور شام ہونے پر مزار کے پاس تک کام ادھورا چھوڑ کر کل مکمل کرنے کے ارادے سے چلے گئے. اگلی صبح دوبارہ پچھلے دن کی طرح ہوا کہ ریلوے کی پٹری کئی میلوں دور تک بکھری پڑی تھی جس پر انھیں احساس ہوا کہ یہ واقعی کسی پہنچی ہوئی بزرگ ہستی کا مزار ہے. اس بنا پر انہوں نے پٹری کا منظور شدہ ڈیزائن تبدیل کیا اور پڑری کو مزار کو بلا نقصان پہنچاے مزار کے پاس سے گزارا.
آج بھی ہر وہ ٹرین جو کراچی سے ملک کے باقی ماندہ شہروں کی طرف جاتی ہے تو اس مزار کے پاس سے گزرتی ہے اور لوگ درودوسلام پڑھتے ہیں. اگر آپ کو بھی اس طرح کا کوئی واقعہ آتا ہو تو یقیناً آپ مجھ سے شیر کر سکتے ہیں.