اگر مجھ سے غالب کے بارے میں راےٴ پوچھی جاے۔اگر نہ بھی پوچھی جاےٴ دوسروں سے پوچھلی جاےٴ تو وہ بھی یعقینً مجھ سے اتفاق کریں گے۔کہ ًغالب سب پر غالب ہے ً اپنی شاعری کے معیار سے سہ ہی کہتا ہے
کے اگر وہ پیدا ہوےٴ۔۔۔نسلً ترک تھے۔
غالب عمر بھر خراب مالی حالات سے دوچار رہے۔بہت سے لوگوں سے ادھار لے رکھا تھا۔ جب شادی کی تو ۵،٦ بشے پیدا ہوےٴ تاہم وہ صرف ۳ یا ۴ سال کی عمر ہی پا سکے۔اور اسکے بعد انتقال کرگے۔ غالب کو اپنے بچھے نہ ہونے کا بھی بہت دکھ تھا۔
اولاد کی کمی پوری کرنے کے لیے ًزین العابدین عارف ً کو گود لیا۔زین جب ١۲ سال کی عمر کو پہنچے تو اسکی شادی کروادی انکے دو بچھے بھی ہوگے تاہم جب زین ١٦ سال کی عمر کو پہنچے تو ینکا بھی انتقال ہو گیا جس کا غالب کو بہت ہی بڑا صدمہ لگا غالب نے اسکی وفات پر ایک مریہٴ لکھا۔جو کہ ادب کے حوالے سے ایک شاہکار تصور کیا جاتا ہے۔جس کے چند ایک اشعار پیش خدمت ہیں۔
، تم شب چار دھم تھے میرے گھر کے
پھر کیوں نہ رہا گھر کا وہ نقشہ کچھ دن اور
،ہاں اے فلک پیرچواں تھا ابھی عارف
کیا تیرا بگڑتا جو نہ مرتا وہ کچھ دن اور
دکھوں کا ایک پہاڑ ٹوٹے پڑنے کے باوجود غالب کے اندر ظرافت کا مادہ کوٹ کوٹ کر بھرا تھا۔ہر بات سےمسند تھے۔
غالب کو عام بہت پسند تھے۔بہت شوق سے کھاتے تھے۔آموں کے سیزن میں ان کے دوست،تعلق دار ان کے لیے یہ تحفہ ضرور بہجھتے تھے۔ایک مرتبہ غالب اپنے دوستوں کے ساتھ بازار میں آم کھا رہے تھے تو انکی گھٹلیاں سڑک پر پھینک رہے تھے تو انکے دوست انکی اس بات سے بہت غصہ کرتے تھے تو وہاں سے ایک گدھا گزر رہا تھا اسنے گھٹلیاں سونگھ کر چلا گیا تو اس پر غالب کے دوست نے ان پر ایک جملہ کسا کہ
ًمیاں آم تو گدھے بھی نہیں کھاتے۔
تو اس پر غالب نی حاضر دماغ سے جواب دیا
ًہاں میاں تم ٹھیک کہتے ہوں عام تو گدھے نہیں کھاتے۔
اس جملے سے غالب کی فطری حاضر دماغی اور ظرافت کے مادے کا بھرپور اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔