طلاق کی شرح میں اضافے کی وجہ

Posted on at


لفظ طلاق ایک بہت ہی چھوٹا لیکن بہت ہی خوف ذدہ کرنے والا خوف ناک لفظ ہے۔ بظاہر یہ سننے والوں کے لیے عام الفاظ جیسا عام لفط ہے۔ لیکن یہ لفظ تکلیف دہ اور خوف ناک ان لوگوں کے لیے ہے جن کے لیے یہ لفظ(طلاق) منتخب کیا جاتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں بڑنے والی برائیوں میں سے یہ ایک بہت بڑی برائی ہے۔ اور اس کی شرح دن بہ دن کم ہونے کی بجائے بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ طلاق اسلام میں جائز ہے لیکن اللہ اور اس رسولﷺ نے بھی اس کام کو نہ پسند کیا ہے۔ طلاق کی شرح میں اضافے کی کچھ وجوہات یہ ہیں۔

 

 

۱ سب سے پہلی اور بنیادی وجہ نکاح نامہ جو کہ صرف ایک صفہ ہے لیکن اس کو ٹھیک سے پر نہ کرنے کی صورت میں بھی یہ برائی وجود میں آتی ہے۔ نکاح نامے میں لڑکی کے کچھ حقوق ہوتے ہیں جن کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ نظر انداز کیا بلکہ ان حصوں کو کاٹ ہی دیا جاتا ہے ان کو کاٹنے کی بجائے ہم لوگوں میں اس کو پر کرنے کا شعور ہونا چاہیئے جب ہم خود ہی اپنے حقوق کا خیال نہیں رکھیں گے تو کوئی اور ہمارے حقوق کیسے پورے کر سکتا ہے۔

 

 

  • اس بڑھتی ہوئی برائی کی دوسری اور اہم وجہ جہیز ہے۔آج کل غربت کی شرح کافی زیادہ ہے۔ایک غریب ماں باپ کے لیے بیٹی ایک بوجھ سے کم نہیں۔ غریب والدین کسی بھی طرح محنت کر کے پیسے اکھٹے کر کے اپنی بیٹی کو رخصت کرتے ہیں  لیکن کچھ عرصے بعد اس کو جہیز کا طعنہ دے کر طلاق تھما کے واپس بیج دیا جاتا ہے۔ خدا کے واسطے جہیز جیسی برائی کو معاشرے سے ختم کریں۔

 

۳ تیسری وجہ بے روزگاری ہے اکثر دیکھا گیا ہے جب لڑکا پڑھائی ختم کرتا ہے تو والدین بجائے کہ وہ اس کو سیٹل ہونے کا موقع دیں وہ جلد از جلد اس کی شادی کا فیصلہ کرتے ہیں تاکہ ان کا بچہ بےراہ روی کا شکار نہ ہو جائے۔ اور پھر جب لڑکے پے شادی کی ذمہ داری آتی ہے اور لڑکا مناسب کام نہ ہونے کی وجہ اس ذمہ داری کو ٹھیک سے انجام نہیں دے پاتا اور پھر وہ اس رشتے کو بوجھ سمجنے لگتا ہے۔ اور خود کو اس پریشانی سے آزاد کرنے کے لیے طلاق کا راستہ اپناتا ہے۔

 

 

۴ چوتھی وجہ لڑکی کی چھوٹی عمر میں شادی کر دینا۔چھوٹی عمر ہونے کی وجہ وہ نئے لوگوں میں ارجسٹ نہیں کر پاتی اور نہ ہی گھر کے بڑے سمجوتہ کرنے کی طرف آتے ہیں۔ اور پھر چھوٹی چھوٹٰی باتیں بڑی لڑائی کی شکل اختیار کر لیتی ہیں اور بات طلاق پے جا کے ختم ہوتی ہے۔

۵ بعض لوگ اپنے غصے پے قابو نہ رکھنے کی وجہ سے بھی طلاق دے دیتے ہیں اور پھر ساری زندگی کے لیے پچھتاتے ہیں۔

 

 

یہ تو کچھ پوائنٹ ہیں جن پے میں نے روشنی ڈالی ہے اگر اس برائی پے ٹھیک سے روشنی ڈٓالی جائے تو شاید الفاظ ختم ہو جائیں۔ اس بڑھتی ہوئی برائی کو دیکھ کر لگتا ہے جیسے دنیا میں انسانیت نام کی چیز باقی نہیں رہی۔ ہاں یہ بات ٹھیک ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ حق آدمی کو دیا ہے لیکن محظ اپنے لالچ، نفس، غصے، کی بنا پر طلاق دینے کا حق بلکل نہیں دیا۔خداراہ اس برائی کو معاشرے سے ختم کیا جائے۔     



About the author

mian320

I sm mr.

Subscribe 0
160