کرے جندر ٹلا ، کرے دارے سِنے
پانی اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ بیش قیمت نعمتوں میں سے ایک ہے۔ اگر خدا کی اس پیدا کی ہوئی زمین پر نظر ڈالی جائے تو اس کے تین تہائی حصے پر پانی ہے۔ یہ پانی نظام قدرت کو برقرار رکھنے کے لئے اللہ کی قدرت کو نمونہ ہے۔ پانی سمندروں سے بھاپ بن کر فضاؤں میں چلا جاتا ہے اور سطح سمندر سے بلند مقامات سے بارش کی صورت نیچے آ جاتا ہے۔ اگر یہی پانی زیادہ بلندی پر پہنچ جائے تو برف کی صورت اختیار کر کے اونچے بلند پہاڑوں پر برستا ہے اور اللہ کی عجیب و غریب قدرت کا نظارہ پیش کرتا ہے جو برف کو بہت بڑے پانی کے ذخیرے کے طور پر سردیوں میں جما دیتا ہے اور گرمیوں میں پگھلا کر دریاؤں ، ندی نالوں ، تالابوں اور جیھلوں کے ذریعے پھر سمندر میں پھک دیتا ہے۔ ان ندی نالوں پر اللہ کی ہر رنگ کی مخلوقات گزر بسر کر رہی ہے۔ جانوورں کے غول انہی دریاؤں، ندی نالوں پر اردگرد نظر آتے ہیں۔ انسانوں کی آبادیاں بھی دریاؤں ندی نالوں اور سمندروں کے کنارے آباد ہیں۔
پاکستان میں پانی کو صیحیح استعمال کرنے کے لئے نہروں کا نظام رائج ہے جس کے ذریعے آبپاشی ہو رہی ہے اور جو ہماری زراعت کے لئے کلیدی کردار کا حامل ہے۔ ملک خدادار میں سالانہ ایک اندازے کے مطابق ہماری زراعت کے لئے چار کروڑ سے پانچ کروڑ کیوسک پانی درکار ہے۔ یہ یاد رہے اس وقت دنیا میں ستر فیصد پانی زراعت کے لئے اور بیس فیصد صنعتوں کی ضرورت کے لئے دس فیصد پینے کے لئے دوسری گھریلو ضروریات کے لئے درکار ہے۔ بدقسمتی ہماری قوم کی پانی کی اشد ضرورت کی نوعیت کے بڑے پانی کے ذخائر سیاست اور ذاتیات کی نظر ہو چکے ہیں جس میں کالا باغ ڈیم کا ذکر بھی لازمی ہے۔ جس سے نہ صرف ہم توانائی میں خودکفالت کی جانب گمزن ہوتے بلکہ اس سے ہماری بنجر زمینے بھی سرسبز و شاداب ہوتیں۔
ہمارے ملک کے پانی کے بڑے ذرائع دریا ہیں جن میں سندھ ، جہلم، ستلج، بیاس ، راوی وغیرہ ہیں۔ تقریباً سارے دریاؤں کا رخ صوبہ پنجاب سے ہوکر ، صوبہ سندھ اور بحیرہ عرب کی جانب ہوتا ہے۔
ہمارے تقریباً سارے دریاؤں کا ممبہ بھارتی علاقوں سے ہیں ، بھارت سے ہماری ازلی دشمنی کا شاخسانہ ہے کہ برسات کے موسم میں اپنے پانی کے ڈیموں سے پانی کو چھوڑ دیتا ہے ، یہ پانی سیلابوں کی شکل اختیار کر کے ہمارے میدانی علاقوں کی آبادیوں کو جانی اور مالی نقصان پہنچاتا ہے۔ اور کبھی خوشک سالی میں ان ڈیموں کے ذریعے ہمارے پانی کو روک دیتا ہے اور ہماری سرسبز زمینوں کی لہرالی کو بنجر زمین میں تبدیل کر دیتا ہے۔
دوسری طرف ہمارے ملک کا المیہ یہ ہے ہمارے بے حس حکمران نے پانی کے بڑے ذخائر نہ بنائے اور دشمن نے بھی اس کا خوب فائدہ اٹھایا۔ کالاباغ ڈیم کی مخالفت بھارتی نژاد پارٹی اے این پی، جو پشتونوں کے حقوق کا نعرہ لگا کر سیاست کرتی ہے، نے کی اور اس ڈیم کی تعمیر کو رکوا دیا۔ گویا پاکستان کے اندر ہی انڈین لابی کام کر رہی ہے اور اس ملک کے مفادات کو نقصان پہنچا رہی ہے۔
بڑے آبی ذخائر سے مون سون کے موسم میں برساتی پانی کو ذخیرہ کیا جاسکتا ہے اور بڑے سیلابی ریلوں کو روک کر ہم میدانی علاقوں کی آبادیوں اور دیہاتوں کو زیرآب لانے سے روک سکتے ہیں اور محفوظ بنا سکتے ہیں اور اسی نظام کو فعال کر کے پینے کے پانی اور توانائی حاصل کی جاسکتی ہے۔
پانی کی بہتر استعمال کے لئے قومی سطح پر ایک جامع اور فعال پالیسی کی ضرورت ہے۔ ہمارے حکمرانوں کو اب عوام کی خاطر ہندوستان سے پانی کی کمی کی دو ٹوک بات کرنا ہو گی اور اپنی زمینوں کی شادابی کو بنجر ہونے سے بچانا ہوگا اور پانی کے بڑےذخائر بھی بنانے ہو گے اور نہری نظام کو بہتر کر کے ان صحرائی علاقوں تک توسیع دینی ہو گی جہاں ہر سال بھوک و پیاس اور قحط سے لوگ لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔
بے جا طور پر ہم اس کو حکمرانوں کی غفلت اور نااہلی بھی کہ سکتے ہیں اور شاطر دشمن کی کامیاب پالیساں بھی۔
کرے جندر ٹلا تے کرے دارے سنے۔