انگریزوں کی تجارت اور خود مختاری کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ تب زائرین مکہ بھی بحری سفر فرنگیوں کی اجازت کے بغیر نہیں کر سکتے تھے ۔ اس وقت مغلوں کی حکومت تھی ۔ مسلمانوں کی تعلیمی نظام کو بھی برباد کر دیا گیا ۔ انگریزوں نے مسلمانوں کی تعلیم کے پیسے غیر منصفانہ کاموں میں لگاۓ ۔ ان حالات کی وجہ سے بھی مسلمانوں نے صبر کا دامن سنبھالا ۔ کلکتہ کے مدرسے میں انگریزی زبان کی جب تعلیم دی گئی تو مسلمان طلبہ نے انگریزی تعلیم حاصل کی ۔ لیکن بعد میں انگریزوں نے ملازمتوں کے معاملے میں امتیازی سلوک کیا تو ان کے حوصلے ٹوٹ گئے ۔
ایک دور ایسا بھی آیا جب برصغیر میں قحط پڑا لاکھوں کے لاکھوں لوگ موت کا شکار ہوۓ اور ان کے یتیم بچوں کی پرورش کرنے کی کوئی استطاعت نہ رکھتا تھا ۔ ان بچوں کو انگریزوں نے سر سید احمد سے چھین کر اپنے قبضے میں لیا ۔ جب کہ سر سید احمد ان بچوں کی اچھے طریقے سے پرورش کر رہے تھے ۔ ان سب باتوں سے سب بندوں کا یہ احساس پختہ ہو گیا تھا کہ انگریز ان بچوں کو عیسائی بنانا چاہتے تھے ۔ آخر کار وہ وقت بھی جس کا تمام لوگوں کو انتظار تھا ۔ ہوا یوں کہ یہ بات مشہور ہو گئی کہ جو نئے کارتوس فوجیوں کو دئیے جا رہے ہیں اس میں گاۓ اور سور کی چربی استعمال ہو گی ۔
ہندوستانی فوجیوں میں یہ بات آگ کی طرح پھیلی اور یہ بات ہندوستان کی تمام چھاونیوں میں پھیل گئی ۔ اس سے ہندووں میں تاثر کیا جانے لگا کہ انگریز ہمارا ایمان خراب کرنا چاہتے ہیں ۔ اس کے لئے انگریز فوجی افسروں نے میٹنگز بلائیں اور کہا کہ ہم آپ کے مذھبی تعلقات میں دخل نہیں دینا چاہتے اور ان کارتوسوں میں کسی چیز کی چربی شامل نہیں ہے ۔ لیکن اس بات کو کسی فوجی نے بھی نہ مانا اور اسطرح ہنگامہ آرائی شروع ہو گئی ۔ ہندووں نے انگریز افسروں کا قتل کرنا شروع کر دیا ۔ اسطرح تمام فوجی بغاوت شروع ہو گئی ۔ انہوں نے بہادر شاہ ظفر کو دوبارہ بادشاہ بنانے کی کوشش کی اور دہلی کی طرف پہنچنے لگے ۔ بہادرشاہ ظفر کا دربار اس وقت بھی دہلی میں تھا ۔ لیکن اپنی اصلی شان و شوکت کھو چکا تھا اور خود وظیفہ کے ذریعے زندگی گزار رہا تھا ان فوجیوں کی کوششوں کی وجہ سے بادشاہ نے فوج کی کمان اپنے ہاتھ میں لی اور اسطرح فوجوں نے آگرہ کی طرف پیش قدمی کی ۔
١٨٥٧ کی جنگ آزادی مختلف دوروں سے گزری ہے اور اس تحریک میں بہت سے لوگوں نے حصہ لیا ۔