غزوہء حنین
مکّہ مکرمہ کی فتح کے بعد مسلمان پندرہ دن تک امن و سکون سے رھے اور طواف کعبہ کی حسرتوں کو پورا کرتے رھے . اسی اثنا میں ایک خبر ملی کہ ہوازن اور ثقیف کے قبیلے جنگ کی تیاریوں میں مصروف ہیں . سرکار دو عالم ( صل الله علیہ وسلم ) نے اپنے لشکر کے ساتھ ادھر کا رخ کیا . لشکر میں دس ہزار مہاجر و انصار تھے . دو ہزار مکّہ کے نو مسلم . بعض مشرک بھی شریک ھو گئے تھے . مسلمانوں نے جب بارہ ہزار کا لشکر جرار دیکھا تو غرور میں آ گئے اور خیال کیا کہ آج دنیا کی کوئی طاقت ھمیں مغلوب نہیں کر سکتی
جب یہ لشکر حنین کی وادی میں پہنچا جو مکّہ سے صرف تین میل دور ہے تو مالک بن عوف کی قیادت میں ہوازن و ثقیف کے ماہر تیر انداز تنگ وادی کی کمین گاہوں میں چھپ کر بیٹھ رھے . جب مسلمان ان کی زد میں آ گئے تو انہوں نے تیروں کی بارش کر دی . تیروں کی بے پناہ اور غیر متوقع بارش سے مسلمانوں کے پاؤں اکھڑ گئے اور انہوں نے بے تحاشا بھاگنا شروع کر دیا اور نبی کریم ( صل اللہ علیہ وسلم ) کی معیت میں صرف چند جان نثار رہ گئے تو اس نازک موڑ پر بھی آپ ( صل الله علیہ وسلم ) کے پاۓ ثبات میں لغزش نہیں آئی . نبی پاک ( صل اللہ علیہ وسلم ) سفید خچر پر سوار تھے . اسے ایڑ لگائی اور دشمن کی صفوں میں پہنچ گئے . اسی حالت میں آپ ( صل الله علیہ وسلم ) نے کنکریوں کی ایک مٹھی بھر کر انکی طرف پھینکی جو سب کافروں کی آنکھوں پر پڑی . آسمان سے فرشتوں کا لشکر بھی اتر آیا جو کسی کو نظر نہیں آتا تھا . پھر کیا تھا ، دشمنوں کے پاؤں اکھڑ گئے . حضور ( صل اللہ علیہ وسلم ) کے حکم سے حضرت عبّاس ( رضی الله عنہ ) نے بلند آواز میں مہاجرین اور انصار کو پکارا کہ حضور ( صل اللہ علیہ وسلم ) الله تعالیٰ کے فضل و کرم سے زندہ ہیں ، ان کے پاس جمع ھو جاؤ
حضرت عبّاس ( رضی الله عنہ ) کی اس پکار پر صحابہ اکرام پروانہ وار دوڑے چلے آئے اور حضور ( صل اللہ علیہ وسلم ) کے ارد گرد جمع ھو گئے اور الله تعالیٰ کی مدد سے مسلمانوں کو شاندار کامیابی نصیب ھوئی اور کفار کی یقینی فتح شکست میں بدل گئی . ان کے ستر آدمی قتل ہوۓ . ہزاروں کی تعداد میں قید ہوۓ . چھ ہزار تو عورتیں تھیں . بے اندازہ مال و غنیمت بھی ہاتھ آیا
حنین کی فتح کے بعد طائف کا محاصرہ کیا گیا . وہاں اٹھارہ روز تک تک محاصرہ جاری رہا . اس کے بعد حضور ( صل اللہ علیہ وسلم ) جعرانہ کے مقام پر واپس تشریف لے آئے جہاں سارا مال و غنیمت اکھٹا کیا گیا تھا . آپ ( صل الله علیہ وسلم ) کے حکم سے یہ سب مال حکم خداوندی کے مطابق تقسیم کر دیا گیا . اس کے بعد ہوازن کا ایک وفد جو مشرف بہ اسلام ھو چکا تھا حاضر خدمت ھوا اور رحمت و شفقت کی درخواست کی . آپ ( صل الله علیہ وسلم ) نے فرمایا کہ میں نے اتنے دن اس مال کی تقسیم میں تاخیر کی مگر تم نہ آئے ، اب مال تقسیم ھو چکا ہے . اب دو ہی چیزیں بچی ہیں ، جس کو تم چاہو پسند کر لو . مال و اسباب یا اہل و عیال . انہوں نے اہل و عیال کی واپسی کی درخواست کی جو آپ ( صل الله علیہ وسلم ) نے قبول فرمائی . نبی پاک ( صل اللہ علیہ وسلم ) نے اپنے حصّے کے قیدی آزاد کر دیے اور دیگر مجاہدین نے بھی اپنے حصّے کے قیدی آزاد کر دیے . اس فیاضانہ سلوک سے اسلام کے پرانے دشمن بھی اسلام کے گرویدہ ھو گئے
اس کے بعد الله تعالیٰ کی طرف سے حکم نازل ھوا کہ مشرکین عرب حرم کعبہ میں داخل ھو کر جاہلانہ رواج کے مطابق طواف کرتے اور ارکان حج بجا لاتے ہیں . انھیں اس کی ممانعت کی جاۓ . کعبہ جو محض خداۓ واحد کی عبادت کے لئے تعمیر کیا گیا ہے وہاں اب مشرکانہ طریقوں سے عبادت اور سیٹیاں بجا بجا کر برہنہ طواف کرنے کی اجازت نہ ھو گی
میرے بلاگز پڑھنے کے بعد بز بٹن پر ضرور کلک کیجئے گا . میں آپ کا بہت احسان مند ھوں
میرے مزید بلاگز کے لئے میرا لنک وزٹ کیجئے
http://www.filmannex.com/NabeelHasan/blog_post
شکریہ ....الله نگہبان
بلاگ رائیٹر
نبیل حسن