تقسیم ہند 3جون 1947ءکے منصوبے کے مطابق متحدہ ہندوستان کی افواج اور فوجی سازوسامان کی تقسیم کا طریقہ کار بھی وضع کیا گیا تھا۔
یہ فریضہ سرانجام دینے کے لیے فیلڈ مارشل آچینلک کا زمہ داری سونپی گئی۔اس کام کے دو پہلو تھے۔1افوج کی افرادی قوت کی تقسیم 2فوجی سازوسامان کی تقسیم۔
برطانوی حکومت نے یہ فیصلہ کیا تھاکہ ہر دو ممالک کے الگ الگ کمانڈران چیف ہوں گے۔جبکہ سرآچینلک بحیثیت سپریم کمانڈر کے کام کریں گے تاکہ فوجی اثاثہ جات کی تقسیم منصفانہ طریقے سے سرانجام پاسکے۔
سرآچینلک نے بہت محنت اور باریک بینی سے کام کرتے ہوئے افواج کی تقسیم کا پہلہ مرحلہ 15اگست 1947ء تک مکمل کر لیا۔
تاہم ان افراد کو پاکستان پہنچنے میں کچھ وقت لگا۔کام کی تیز رفتاری کو دیکھتے ہوئےکانگریسی رہنما سخت پریشان ہوئے کیونکہ ان کا تویہ منصوبہ تھا کہ افواج کی تقسیم کم ازکم دو سال کا عرصہ لے گی اور اس طرح پاکستان دو سال کے لیے بغیر افواج کے رہے گا۔آچینلک کے کام کرتے ہوئے کانگریسی راہنماؤں کو اپنا منصوبہ نا کام ہوتا ہوا دکھائی دیا۔لہٰذا انھوں نے شور مچانا شروع کیا کہ آچینلک جانبداری اور ہندوستان مخالف رویہ اپنا رہاہے۔
لہٰذا اس کو فوری طور پر ہٹایا جائے۔آچینلک کوبھی کانگریسی راہنماؤں اور حتٰی کہ لارڈماؤنٹ بیٹن کےپاکستان مخالفانہ رویوں کا علم تھا۔لہٰذاانھوں نے ایک خفیہ خط کے ذریعے برطانوی حکومت کو کانگریسی راہنماؤں اور ماؤنٹ بیٹن کے رویوں کی شکایت کی اور قائداعظم کو بھی خبردار کیا کہ اگر مشترکہ دفاعی کونسل کی تحلیل کی گئی تو پاکستا ن ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنے جائز فوجی سازوسامان سے محروم ہو جائے گے۔
دوسری طرف ماؤنٹ بیٹن جو پاکستان سےذاتی وجوہ کی بناء پر خوش نہ تھا۔برطانوی حکومت سےآچینلک کے ہیڈکواٹرز کی بندش اور اسے انگلستان بلانے کے احکامات جاری کرانے میں کامیاب ہوگیا۔
اس طرح پاکستان اپنے جائز فوجی سازوسامان سے محروم کر دیا گیا۔جو بچا کچھا فوجی سامان پاکستان کو مہیا کیا گیا۔وہ زنگ آلودہ،ٹوٹا پھوٹا اور ناقابل استعمال تھا۔