تقسیم ہند کے نتیجے میں فرقہ وارانہ فسادات سے تقریبا 6.5ملین مہاجرین پاکستان میں پنا لینے پر مجبور ہو گئے تھے۔اتنے بڑے فیصلے کو خوش اسلوبی کے ساتھ حل کرنا ایک کٹھن امتحان تھا۔
چونکہ مہاجرین کے سب سے زیادہ قافلے لاہور کی طرف آرہے تھے لہٰذا قائداعظم اکتوبر 1947ء میں وہاں خود تشریف لے گئے تاکہ مہاجرین کی آبادکاری کا جائزہ لے سکیں۔
30اکتوبر 1947ءکو لاہور میں ایک اجتماعی سے خطاب کرتے ہوئے آپ نے فرمایا؛
''ان ہم پاکستانیوں پر یہ زمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ لاکھوں تباہ حال مہاجرین جو اپنا سب کچھ بھارت میں چھوڑ کر پاکستان آ رہےہیں۔ان کی ہر ممکن کوشش کریں۔انھیں یہ مصیبتیں اس لیے سہنا پڑیں کہ وہ مسلمان ہیں''۔
آپ نے تمام شہریوں سے اپیل کی کہ وہ ان مشکلات حالات میں اپنے مہاجرین بھائیوں کی ہر قسم کی مدد کریں۔مہاجرین کے لیے قائداعظم ریلیف فنڈ کا قیام عمل میں لایا گیا۔اور لوگوں سے اپیل کی گئی کہ وہ فنڈمیں دل کھول کر عطیات جمع کرائیں۔چونکہ مہاجرین کا مسئلہ کافی پیچیدہ تھا۔ اس لیے لیاقت علی خان وزیراعظم پاکستان اور بھارتی وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے ایک دوسرے سے ملاقات کی اور مہاجرین کے مسئلے پر گفت و شنیدکی۔جس کے مطابق یہ طے پایا کہ دونوں ممالک کی حکومتیں اپنے دائرہ اختیار میں اقلیتوں کے تحفظ کی زمہ داری ہو گی او ر اکثریت کو اقلیت کے خلاف تشددکی اجازت نہیں دی جائے گی اور دونوں ممالک مہاجرین کی آباد کاری کے لیے ہر ممکن قدم اٹھائیں گے۔