امام بخاری ( رحمتہ الله علیہ ) کا تعارف حصّہ ٣
جیسا کہ امام بخاری ( رحمتہ الله علیہ ) کے بارے میں ، ، میں نے حصّہ دوئم میں بہت سی معلومات فراہم کی تھیں . آج اسی تعارف کو آگے بڑھاتے ہوۓ میں ان کے بارے میں مزید معلومات فراہم کرنا چاھوں گا
جیسا کہ ہمیں یہ معلوم ہے کہ آپ ( رحمتہ الله علیہ ) سولہ برس کی عمر میں ہی بہت سی احادیث کی کتابیں یاد کر چکے تھے . پھر آپ ( رحمتہ الله علیہ ) اپنے بڑے بھائی اور والدہ کے ہمراہ حرمین شریف میں حاضری دینے کے لئے روانہ ہوۓ . بھائی صاحب اور آپ ( رحمتہ الله علیہ ) کی والدہ ماجدہ حج کی ادائیگی کے بعد واپس بخارا کو ھو لئے مگر آپ نے واپسی کا راستہ نہ لیا اور حصول علم کے لئے وہیں ٹھہر گئے . اسی اثناء میں آپ ( رحمتہ الله علیہ ) نے قضایا الصحابہ والتابعین کے کے نام سے ایک ایک نہایت خوبصورت کتاب تصنیف فرمائی . اس کے بعد آپ ( رحمتہ الله علیہ ) روضہٴ رسول ( صل الله علیہ وسلم ) کے پاس بیٹھ کر چاندنی راتوں میں ایک اور کتاب تصنیف کی جسے تاریخ کبیر کا نام دیا گیا . جب یہ کتاب تصنیف کی ، تب امام بخاری ( رحمتہ الله علیہ ) کی عمر صرف ١٨ برس تھی . آپ ( رحمتہ الله علیہ ) چھ سال تک حجاز مقدس میں ہی مقیم رھے
اس کے بعد امام بخاری ( رحمتہ الله علیہ ) نے ٢١٦ ھ میں حدیث کے علم کی طلب کو لئے اپنا پہلا سفر مکّہ مکرمہ کی جانب کیا تھا . پھر یہاں آپ ( رحمتہ الله علیہ ) نے اپنا سفر ترک نہیں کیا بلکہ سماعت و قرات حدیث کے لئے متعدد بلاد اسلامیہ کا سفر کیا . مصر اور شام کی طرف ٢ ٢ مرتبہ تشریف لے کر گئے . بصرہ کی طرف سفر کی تعداد چار ہے . کوفہ و بغداد میں آمد و رفت تو اس قدر رہی کہ شاید اس کا شمار کرنا بہت مشکل ہے ، ناممکن کے قریب
اساتذہ
امام بخاری ( رحمتہ الله علیہ ) نے جن اساتذہ اکرام سے علم و فضل حاصل کیا ، انکی تعداد کا اندازہ کرنا مشکل ہے . ایک دفعہ آپ ( رحمتہ الله علیہ ) نے فرمایا کہ
میں نے جن آدمیوں سے احادیث شریف نقل کی ہیں
ان کی تعداد ١٠٨٠ ہے ، اور وہ سب کے سب لوگ محدث
تھے
آپ ( رحمتہ الله علیہ ) نے جن جلیل القدر مشائخ و محدثین سے روایات نقل کی ہیں ، ان میں اکابر کے علاوہ اماثل و اصاغر بھی شمار ھوتے ہیں . طلب علم کا امام بخاری ( رحمتہ الله علیہ ) کو اتنا شوق تھا کہ جس کسی سے اور کہیں سے بھی کوئی حدیث ملتی ، فورا قبول کر لیتے . چاہے حدیث فراہم کرنے والا آپ ( رحمتہ الله علیہ ) سے کم سن یا ان کا اپنا کوئی شاگرد ہی کیوں نہ ھوتا
تلامذہ
حضرت امام بخاری ( رحمتہ الله علیہ ) کا حلقہ تلامذہ بھی بہت حد تک وسیع ہے . دیکھا جاۓ تو بخارا سے لے کر حجاز مقدس تک آپ کے تلامذہ کا سلسلہ پھیلا ھوا نظر نظر آتا ہے . پھر اس وقت کے مطابق بصرہ ، کوفہ ، بغداد ، نیشاپور ، سمرقند اور بخارا جو علم و فضل کے عظیم الشان مراکز میں شمار ہوتے تھے ، امام بخاری ( رحمتہ الله علیہ ) وہاں متعدد بار تشریف لے گئے جہاں دنیاۓ اسلام کے اطراف و اکناف سے آنے والے تمام لوگ ان کے حلقہء درس میں شامل ہوۓ اور آپ ( رحمتہ الله علیہ ) سے تلمذ کا سلسلے کو قائم کیا
فربری ( رحمتہ الله علیہ ) کا کہنا ہے کہ
صحیح بخاری ، جو کہ امام بخاری ( رحمتہ الله علیہ )
کی تصنیف ہے ، ان کی اس کتاب کی سماعت کرنے والوں کا
اعداد و شمار ٩٠ ہزار کے لگ بھگ ہے
شیخ عبد الحق محدث دہلوی لکھتے ہیں
حضرت امام بخاری ( رحمتہ الله علیہ ) سے حدیث
شریف سیکھنے اور روایت کرنے والوں کی تعداد لگ بھگ
ایک لاکھ کے قریب ہے
ابو علی صالح بن محمد بغدادی اور محمد بن یوسف بن عاصم لکھتے ہیں
امام بخاری ( رحمتہ الله علیہ ) جب بھی حدیث کا درس فرماتے
تو کم سے کم ایک وقت میں بیس ہزار افراد اس مجلس میں
شریک ھوتے تھے
دراصل حقیقت تو یہ ہے لفظ اعداد و شمار امام بخاری ( رحمتہ الله علیہ ) کے تلامذہ کے احصاء کرنے سے مکمل قاصر ہیں . صحاح ستہ کے مصنفین کا اگر کچھ تذکرہ یہاں ھو جاۓ تو ھمیں یہ بات پتہ چلتی ہے کہ امام مسلم بن حجاج قشیری ( متوفی ٢٦١ ھ ) ، امام ابو ترمزی ( متوفی ٢٧٩ ھ ) ، اور امام عبد الرحمان نسائی ( متوفی ٣٠٣ ھ ) کا شمار بھی امام بخاری (رحمتہ الله علیہ)کے تلامذہ میں ھوتا ہے
============================================================================================================
میرے مزید بلاگز سے استفادہ حاصل کرنے کے لئے میرے لنک کا وزٹ کیجئے
http://www.filmannex.com/NabeelHasan/blog_post
بلاگ پڑھ کر بز بٹن پر لازمی کلک کیجئے گا
شکریہ ......الله حافظ
بلاگ رائیٹر
نبیل حسن ٹرانسلیٹر
فلم انیکس