عدالت کے حکم پر شائستہ کو اپنے والد،بھائی اور بہن کے ساتھ پھلیلی حیدرآباد کے ساتھ بھیج دیا گیا۔لیکن حالات کی ستم ظریفی دیکھیے کے شائستہ کی بہن اور بہنوئی نے بھی شائستہ کو پناہ دینے سے انکار کر دیا اور گھر بند کر کے چلے گئے۔ شائستہ واپس سکھر ہائی کورٹ پہنچ گئی جہاں اسے انسانی حقوق کی تنظیم کے حوالے کر دیا۔ آج کل وہ ہلال احمر ہسپتال میں ڈاکٹر ہارون کے پاس زیر علاج ہے۔ ڈاکٹر کے مطابق شائستہ شدید ذہنی دباؤ کی وجہ سے علیل ہو گئی ہیں۔
اس بنا پر ۱۵ دن کے لیئے اس سے ملاقات پر پابندی عائد کر دی۔ جب تک شائستہ کراچی میں زیر علاج رہی تو انسانی حقوق کی تنظیمیں اور دیگر انسان دوست افراد نے انکو تحفظ فراہم کیا۔ اب شائستہ کی بہن اور بہنوئی نے کچھ ہمت پکڑی ہے اور شائستہ کو لینے آ گئے۔ اسکے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کی کمیشن حیدر آباد نے بھی شائستہ کو تحفظ فراہم کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ شائستہ کے والد کی تعیناتی حیدر آباد ہو جاۓ تا کہ انہیں قبائلی انتقام سے تحفظ فراہم ہو سکے۔
قبائلی سماج میں شائستہ جیسی دلیر عورتوں کو جنم لینا اس بات کی غمازی ہے کہ وہ وقت دور نہیں،جب خواتین قبائلی روایتوں سے جان چھڑانے کے قابل ہو جائیں گی۔ شائستہ عالمانی قبائلی روایات کے خلاف بغاوت کی ایک علامت ہے۔ سندھ میں کارو کاری کا رواج بھی حقیقت میں قبائلی سماج کی پیداوار ہے۔ جس سماج میں عورت کو قرآن شریف سے شادی کرنے پر مجبور کیا جاۓ، نوجوان لڑکیوں کو عمر رسیدہ مردوں سے بیاہ دیا جاۓ اس سماج میں بغاوت اور مزاحمت لازمی امر ہے۔۔۔۔۔کہ
” اک زندہ حقیقت مرے سینے میں ہے مستور
کیا سمجھے گا وہ جس کی رگوں میں ہے لہو سرد”