پاکستان کے دیگر صوبوں کے عوام کو بلوچستانکے صورتحال کی سنگینی کا احساس اس وقت ہوا جب گھریلو گیس کی فراہمی میں تعطل واقع ہوا اور لوگوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ جیسا کہ یورپ اور امریکہ کے عوام کو ۱۹۷۳ کی عرب،اسرائیل جنگ کے بعد عرب ممالک کی جانب سے تیل کی فارہمی بند کیئے جانے کے بعد ہی مشرق وسطیٰ کی صورتحال کی سنگینی کا احساس ہوا تھا۔ رقبہ کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے اور عوام کی معاشی حالت کے حساب سے سب سے زیادہ بدحال صوبے کے حالات کا علم باقی ملک کو وہاں رونما ہونے والے سنگین نوعیت کے واقعات کے ضمن میں ہی ہوتا ہے۔
بلوچستان پاکستان کا وہ صوبہ ہے جسے ملک کی مرکزی انتظامیہ نے ہمیشہ محض نظم و نسق اور وہاں کے سرکش عوام کی سرکوبی کے نقطہ نظر سے دیکھا ہے۔ بلوچستان میں طویل دورانیہ کے دو فوجی ایکشن ہو چکے ہیں۔ اور اب شائد تیسرے فوجی ایکشن کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ لیکن جس طرح پچھلے دو فوجی ایکشنز کے ذریعے بلوچستان کے عوام کے مسائل حل نہیں کیئے جا سکے اسی طرح اب کی دفعہ بھی پہلے سے مختلف نتیجے کی توقع نہیں کی جا سکتی۔
بلوچستان معدنی دولت سے مالا مال ہے۔ اسکا ۷۰۰ کلو میٹر طویل ساحل پاکستان کو خلیج کے ممالک اور ایران سے ملاتا ہے۔ یہاں سمندری وسائل اور ماہی گیری کو ترقی دینے کی بہت گنجائش موجود ہے۔ بلوچستان میں سوئی کے مقام پر قدرتی گیس کو دریافت ہوۓ پچاس سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔ اس گیس نے پاکستان کو توانائی کے شعبہ میں انقلاب سے ہمکنار کیا لیکن بلوچستان کے عوام کی بھاری تعداد اس گیس سے ابھی تک مستفیض نہیں ہو سکی۔ پورے ملک کو گیس فراہم کرنے کے باوجود بلوچستان کا بجٹ خسارہ میں رہتا ہے اور صوبہ اپنی مالیاتی ضروریات کے لیئے مرکز کی امداد کا محتاج رہتا ہے۔
گزشتہ کچھ سالوں سے پاکستان کے ارباب اقتدار کو بلوچستان کی جغرافیائی اہمیت کا احساس ہوا ہے۔ اور وہاں نام نہاد میگا پراجیکٹس کا آغاز کیا گیا ہے۔ ان میں سے حکومت کی جانب سے سب سے زیادہ اہمیت گوادر کی بندرگاہ کے منصوبے کو دی جا رہی ہے۔ یہ بندرگاہ پاکستان کو وسطی ایشیا کے ممالک سے ملاتی ہیں۔ اور اس سے بلوچستان میں معاشی انقلاب رونما ہو گا۔ وسطی ایشیا کے ممالک کو سوویت یونین کے ٹوٹنے کے نتیجے میں آزاد قومی حیثیت حاصل کیئے ہوۓ ۱۴ سال سے زیادہ کا عرصہ بیت چکا ہے۔