انسان جس سر زمین پر نشو و نما پاتا ہے اس میں بسنے والے لوگوں سے ، اس کے درو دیوار سے اور اس کی فضاؤں سے انسان کو ایک خاص قسم کی جذباتی وابستگی ہو جاتی ہے اسے حب وطن کہتے ہیں۔
وطن سے محبت ایک فطری امر ہے۔ حیوانات تک اپنے ٹھکانوں سے محبت کرتے ہیں۔ اور اس کی محبت میں جان لڑا دیتے ہیں۔ حب وطن کا احساس غریب الوطنی میں بہت زیادہ ہوتا ہے۔ شیخ سعدیؒ کہتے ہیں کہ وطن کا کانٹا بھی سنبل اور ریحان سے زیادہ عزیز ہوتا ہے۔
حضرت یوسف علیہ السلام جو مصر میں حکومت کرتے تھے۔ کنعان کے بھکاری کو بھی اس حکومت سے بہتر خیال کرتے تھے کیونکہ یہ ان کا وطن تھا اور حاکم ہونے کے باوجود وطن کی خوشبو اور محبت مصر میں نہ تھی۔
حب وطن کی اعلیٰ و ارفع صورت یہ ہے کہ وطن کے ساتھ ہماری محبت اس وجہ سے ہوکہ اس میں اہل وطن بستے ہیں۔ یہ ایسے افراد کا گھر ہے جن کے جذبات ، خیالات ، احسا سات اور عزائم وہی ہیں جو ہمارے ہیں۔ اگر اس جذبے کو صیح اخلاقی قدروں پر استوار کیا جائے تو یہ وابستگی وطن کے حدوں کو پھاند کر نوع انسان کی محبت کا روپ دھار لیتی ہے۔
حب وطن کا محدود تصور:۔
حب وطن کا محدود اور نہایت پست تصور یہ ہے کہ انسان سےدور محض اپنے بیوٰی بچوں ، اپنے عزیز و اقارب اور اپنے شہر کی یاد میں مگن رہے۔
حب وطن کا تقاضا:۔
حب وطن کا تقاضا یہ ہے کہ انسان کو اپنے اہل وطن کے دکھ درد کا صیح احساس ہو ، وہ ان کی خوشی اور غمی میں برابر شریک ہو۔ اپنے مال و دولت اور علم و ہنر سے اہل وطن کی خدمت کرے۔ تعمیر وطن میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی میں کسی قسم کی غفلت اور کو تاہی نہ کرے۔ اپنے دائرہ عمل میں ملک و قوم کے لئے ہر وقت کوشاں رہے۔ صیح معنوں میں محب وطن وہ ہے جس میں دیا نتداری ، فرض شناسی، ہمدردی اور قربانی کا جذبہ موجود ہے۔
جو لوگ وطن کی بہتری کے کام کرتے ہیں اور وطن کی آزادی کے لئے اپنی جاں نثار کردیتے ہیں وہ قوم کے محسن ہوتے ہیں۔ یہی عظیم محب وطن ہیں ان کا نام تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جاتا ہے۔ خود ہماری تاریخ میں اسیے افراد کو بقائے دوام حاصل ہے۔ سلطان ٹیپو ، سراج الدولہ ، نواب بہادر یار جنگ ، علامہ اقبال ، قائد اعظم محمد علی جناح محب وطن تھے۔
حب وطن کا غلط تصور:۔
حب وطن کا جذبہ قومی ترقی کے لئے بہت بڑی نعمت ہے لیکن اگر اس کی بنیاد میں دوسرے اخلاقی اقدار نہ ہوں تو یہ جذبہ وطن پرستی کی ایک محدود شکل اختیار کر لیتا ہے۔ اور جغرافیائی حدود میں مقید ہو کر ایک پست کشمکش کا روپ دھار لیتا ہے۔ پھر دوسرے ملکوں کا استحصال کیا جاتاہے۔ اس قسم کے وطن رنگ ، نسل اور زبان کی بنیاد پر تشکیل پاتے ہیں اور بنی نوع انسان کو قوموں میں بانٹ دیتے ہیں۔ انسانوں کے درمیان مصنوعی تفریق کی دیواریں کھڑی کر دی جاتی ہیں۔ اس طرح یہ جذبہ کمزور قوموں کو دبانے کا باعث بنتا ہے۔
وطن کا تصور مغرب میں ایک محدود خطے کا ہے۔ جہاں ایک ہی نسل یا ایک ہی زبان بولنے والے افراد کا اجتماع ہو۔ وطن کا یہ تصور بہت سی خرابیوں کو جنہم دیتا ہے۔ چھوٹے اور کمزور ممالک میں سیاسی اور ذہنی ابتری پھیلائی جاتی ہے ان کے مذہبی ، معاشی ، روایاتاور ادب پر حملے کئے جاتے ہیں۔ زبان اور ثقافت کو مسخ کرنے کے منصوبے بنائے جاتے ہیں۔
اسلام مغربی تصور وطن کو نہیں مانتا۔ اسلام نسبی اور نسلی فضیلت کا قلع قمع کرتا ہے۔ اسلام کا تصور وسیع تر انسانیت کا مفہوم پیش کر تا ہے۔ مسلمان دنیا کے کسی خطے میں رہتا ہو وہ مسلمان قوم کا فرد ہے۔ اسلام دنیا کے تمام مسلمانوں کو ایک خاندان قرار دیتا ہے۔