مذہب اور معاشی انصاف

Posted on at


 


عام طور پر یہ تصور کیا جاتا ہے کہ مذہب سیاسی و معاشی طور پر حکمران و مراعات یافتہ طبقات کی حمایت کرتا ہے اور اس طرح یہ کبھی بھی عدل کا سرچشمہ نہیں بن سکتا۔ یہ کہا جاتا ہے کہ یہ مفاد پرستوں کے ہاتھوں میں ایک ہتھیار ہے نہ کہ معاشرے کے کمزر و محکوم طبقات کے حقوق کا پاسبان۔ گو کہ کچھ تاریخی حقیقتوں نے اس بات میں حقیقت کا رنگ بھر دیا ہے لیکن بنظر غائر دیکھا جائے تو یہ تصور صحیح نظر نہیں آتا۔ مذہب کو نہ صرف حکمرانوں نے اپنے مفاد کی خاطر استعمال کیا ہے بلکہ فقہاء و مشائخ نے بھی مذہب کو غلط طور پر استعمال کیا ہے۔ ہر مذہب کی تاریخ میں ایسے واقعات موجود ہیں جب مذہب کے نام پر زورآوروں کی حمایت کی گئی۔


 


فقہاء و آئمہ بھی گوشت پوست سے بنے انسان ہوتے ہیں اور باوجود پارسائی کا لبادہ اوڑھے ہونے کے، وہ انسانی کمزریوں سے خالی نہیں ہیں۔ وہ مفاد کی خاطر مذہب کا سودا بھی کر لیتے ہیں اور غریب و مفلوک الحال عوام کے بجائے مفاد پرست طبقات کی حمایت پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ کوئی بھی مذہب ایسا نہیں ہے کہ جسے اس خامی سے مبرا اقرار دیا جا سکے۔ عیسائیت اور اسلام بھی جو کہ اپنی کتابوں کی رو سے غریبوں کے حامی ہیں، اس کمزوری سے نہیں بچ سکے۔ عیسائی، پادری اور مسلم علماء اکثر ظلم اور استحلال کرنے والے حکمران کا ساتھ دیتے رہے ہیں۔ ان عوامل کا الزام ان لوگوں کے سر پر تھوکنے کے بجائے مذہب کے سر منڈھ دیا گیا۔


 


ہر مذہب میں دینی رہنما طاقت و دولت کی خاطر کمزوریوں کا شکار ہوتے رہے ہیں اور مذہب کو اپنے ذاتی مقاصد کی تکمیل کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں۔ زیادہ تر مذٓہب کا نقطہ آغاز ظلم و استحلال کے خلاف احتجاج تھا لیکن رفتہ رفتہ مذاہب کو مفاد پرست عناصر نے اپنے مفاد کے لیے استعمال کرنا شروع کیا۔ ایسا ہی کچھ سیاسی انقلاب کی ساتھ بھی ہوا۔ گوکہ فرانسیسی انقلاب اور روسی انقلاب کے پیچھے اعلیٰ تخیلات کار فرما تھے لیکن وہ بالا دستی کی خواہش مند استحصالی قوتوں کا شکار بن گئے۔ یہ تخیلات اب بھی بہت سوں کو استحصالی قوتوں کے خلاف جدوجہد میں تقویت پہنچاتے ہیں۔ مذہب کو معاشرے میں کارفرما سماجی، معاشی اور سیاسی عوامل کی روشنی میں دیکھنا چاہیے۔ اس بات کی کوشش کی جانی چاہیے کہ مذاہب و مذہبی تخیلات اور صحیفوں و کتابوں میں دیے گیے احکامات پر عملدرآمد کا مخصوص سماجی، معاشی و سیاسی حالات کے تناظر میں جائزہ لیا جائے۔ دینی رہنماؤں کے کردار کا معروضی طور پر جائزہ لینا چاہیے اور یہ دیکھنا چاہیے کہ کہیں وہ مصلحتوں کا شکار تو نہیں ہیں اور مذہب کو مفاد پرستوں کے ہاتھوں میں آلہ کے طور پر استعمال ہونے تو نہیں دے رہے ہیں؟


 


بائبل میں آیا ہے کہ کمزرو اور مظلوم خدا کی زمین کے وارث ہیں۔ یہودیت میں بھی انصاف پر بہت زور دیا گیا ہے۔ اسلام بھی انصاف و مساوات کو بنیادی مذہبی و اقدار قرار دیتا ہے۔ ان تینوں مذاہب کے نبیوں کا تعلق معاشرے کے مظلوم طبقات سے تھا اور انہیں اپنی امتوں کو سیاسی اور سماجی طور پر طاقتور طبقات کےچنگل سے آزاد کروانے کے لیے صبر آزما جدوجہد کرنی پڑی۔ ان انبیاء کو ہر قسم کے تشدد کا نشانہ بنایا گیا لیکن وہ اپنے حق گوئی کے راستے سے نہیں ہٹے۔ ان کی زندگی میں ان کا لایا ہوا مذہب کمزوروں اور مظلوموں کے لیے واحد ذریعہ نجات تھا۔ آیئے ہم دنیا کے بڑے بڑے مذاہب کی تعلیمات کا جائزہ لیں۔ بدھ مت میں رحم اور میانہ روی پر بہت زور دیا گیا ہے، اس مذہب نے اپنے پیروکاروں کو انسانی مصائب اور آلام کے بارے میں بہت حساس بنایا۔ ایک بدھ دانشور کلیا پتیئے پرانندہ نے بدھ مت کے اس پہلو پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ "غلط سرمایہ کاری نہیں کرو، کسی سے غلط سلوک روا نہ رکھو اور غلط اشیائے صرف استعمال نہ کرو۔


 



About the author

Asmi-love

I am blogger at filmannex and i am very happy because it is a matter of pride for me that i am a part of filmannex.

Subscribe 0
160