1973 دستور

Posted on at


   1973 دستور 


کی روشنی میں


مملکت پاکستان جو گونا گو مسائل کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے۔  کوئی بھی انتظامی ادارہ اپنا فعال و ذمہ دارنہ کردارادا کرنے سے قاصر ہے۔  بنیادیں اتنی کمزور و کھوکھلی ہیں کہ کوئی بھی مطلق العنان آ کر حاکمیت پر براجمان ہو جاتا ہے۔  عدالتیں آئین و قانون کی پاسداری نہیں کر سکتی۔ حاکمیت پر براجمان شخص اپنی حکومت کو طول دینے کے لئے بہت سے غیر قانونی حربے استعمال کرتا ہے ایسی کئی مثالیں ہیں جو ماضی کے حکمران چیف جسٹس کی تعیناتی اپنی مرضی سے کرتے آئے ہیں تا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے اپنے حق حکمرانی کے لئے صادر کروا سکے۔  یہ ساری باتیں حکومتی نظام میں کمزوریوں کے سبب ہیں۔  نظام میں استقامت کا شدید فقدان ہے اور جو ملک کے اندر جابجا قانون شکنی اور بغاوت کو تقویت دے رہی ہے۔  اداروں میں جائے تو رشوت کے بغیر کام نہیں ہو سکتا، برآمدات میں کسٹم اہلکار پیدا کے چکروں میں ملک میں آنے والے زرمبادلہ کو شدید نقصان دے رہے ہیں۔  ایک طرف تو حکومتی اشرفیہ ،  ادارے داناستہ طور پر انتظامی امور  میں غفلت اور کوہتائیاں کررہے ہیں  تو دوسرے طرف شہریوں کی جان و مال کو کوئی تحفظ نہیں۔  ڈاکہ زنی، اغوا برائے تاوان ، فراڈ، نوسربازیاں، اشیاء خردونوش میں ملاوٹ،  معصوم و بے گناہ جانوں کا قتل اور ظلم و ستم سے شہریوں کے دلوں میں خوف و ہراس ہے۔  گویا چاروں طرف خوف ہی خوف ، کوئی تو ایسا نظام ہوجو اس ملک کے اندر رہنے والوں کے دل و دماغ   سے ان بالاؤں کےساؤں کو اترا دے اور انہیں پر سکون زندگی گزارنے کا موقع دے۔ ہر طرف ایک بغاوت کا عالم ہے۔  کوئی نیا نظام نہ کہ کوئی نیا چہرہ۔  اکثر کا یہی اعتراض ہے کہ موجودہ حکومت انتخابات میں دھندلی کی وجہ آئی اور سارے منتخب لوگ امرا و نواب ہیں۔  کیونکہ عام لوگوں کے مسائل اسی طرح جوں کے توں ہیں۔ وقت کے ساتھ مذید بڑھ رہے ہیں اور گمبیر ہو رہے ہیں گویا لوگ امراء شاہی کی جمہوریت سے بھی تنگ آ چکے ہیں اور اس طرح مطلق العنانی سے بھی ۔ اب ایک ہی آخری طریقہ بچا ہے کہ وطن عزیز پر  قادر مطلق کی حاکمیت قائم ہو جائے ۔ اس نظام  کے قیام کے لئے بھی کوئی بھاری قیمت نہیں چکا پڑے گی،  صرف 1973 کا آئین صحیح معنوں میں نافذ کر دیا جائے۔



اس آئین کو تمام سیاسی اور دینی جماعتوں نے متفقہ طور پر منظور کیا 


 


 آئین کی شک نمبر 6 میں آرٹیکل 2اے میں لکھا ہے قرارداد مقاصد کے طے شدہ اصول پاکستان میں نافذ ہو گے۔ جس کے تحت عوام و حکمران اللہ کی حاکمیت کے پابند ہو گے۔  اللہ کی حاکمیت کے واضح قوانین قرآن مجید میں موجود ہیں اور پیغمبر آخر زمان ﷺ کی سیرت طیبہ کی شکل میں عملی نمونہ بھی ہیں۔ اس سے بڑی ہمارے لئے اور کیا سعادت مندی ہو گی کہ قرآن مجید چودہ سو سال گزرنے کے باوجود اسی شکل میں ہے جس طرح آپﷺ پر نازل ہوا تھا اور اس کے قوانین اٹل اور سچے کھرے ہیں جو ہمارے وطن عزیز میں بہترین معاشرتی زندگیوں میں انقلاب برپا کرسکتی ہیں۔ دین اسلام کا نظام ایک زمینی حقیقت ہے جسے ساری دنیا کے غیر مسلم مفکروں نے بھی تسلیم کیا۔ دین اسلام کے بانی آنحضرتﷺ ہیں جنہوں نے   دین اسلام کے  اصول و قانوں کو اپنی حیات طیبہ پر نافظ کر کے دنیا کو مثال دی جس کی روشنی کی کرنوں نے دنیا کو ماہ نور کر دیا اور انسانی تہذیبوں سے جہالت کے اندھیرے چھٹ گئے۔  آپﷺ اللہ کے نبی بھی ہیں اور ریاست ساز بھی، ریاست ساز کا لفظ اس لئے مدینہ منورہ میں آپؐ نے بہترین فلاحی ریاست کا قیام کیا اور اس کے لازوال اصولوں کی بدولت قیصر و کسرا کی سلطنتیں بھی زیر نگین ہو کر مسلمانوں کے قبضے میں آ گئی اور آپؐ کے بہترین تربیت یافتہ صحابہ  کے حسن اخلاق و سلوک سے ان مفتوحہ علاقوں کے لوگ مشرف با اسلام ہوئے۔ جس کی نذیر نہ پہلے ملی ہے اور نہ بعد  کے زمانوں میں۔



اگر وطن عزیز کی خلق خدا سنجیدہ ہو 1973 کے آئین پاکستان کو ملک پر عملی طور نفاذ کی کوشش کے لئے حکومتی اشرافیہ و امرا پر دباؤ ڈالے تو اس دستور کے شروع ہی کی شقے دین اسلامی کی نفاذ کی ہیں۔  جو ملک کی نوے فیصد مسلم آبادی کی تمنا و خواہش ہے کیونکہ ہی تمنا و خواہش پاکستان کے قیام کا موجب بنی تا کہ برصغیر کی مسلم آبادی اپنی زندگیوں کو دین اسلام کی تعلیمات پر پر آزادنہ عمل پیرا ہو کر دنیا کی برکات کو بھی سمیٹ سکے اور اپنی ابدی اور ہمیشہ رہنے والی زندگی کو بھی سنوار سکے اور یہی قیام پاکستان کے قیام کے حصول کا مقصد بھی تھا۔ 


۔ 



160