ہمسائے ہمارے اجتماعی رویوں کے عکاس ہوتے ہیں۔ معاشرہ ایک فرد سے تشکیل پاتا ہے۔ رویے، اخلاقی معیار اور تہذیب و ثقافت بھی ایک فرد سے شروع ہو کر اجتماعیت کا روپ دھارتی ہیں۔
تہذیب اور روایات کا ہمیشہ سے چولی دامن کا ساتھ رہا ہے، لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ جیسے جسیے شہر پھلیتے جا رہے ہیں، ذرائع ابلاغ کی سہولتوں میں افراط آتا جا رہا ہے، ویسے ویسے لوگ اپنی ذات کے خول میں بند ہوتے جا رہے ہیں۔ رویے اجتماعیت سے تشکیل پاتے ہیں لیکن اب جیسے جیسے اجتماعیت انفرادیت پسندی میں ڈھلتی جا رہی ہے، ویسے ویسے معاشرے میں ایسی اخلاقی تنزلی بھی دیکھنے میں آ رہی ہے، جس سے کہ ایک طرف تو صدیوں کی بنی ہوئی روایتوں کی بلند و مضبوط عمارتیں ڈھل رہی ہیں تو دوسری جانب انسان بھی جذباتی طور پر تنہائی کے اندھیرے میں سمندر میں ڈوپتا چلا جا رہا ہے۔ لا محالہ جب انسان تنہائی کی اذیت سے دو چار ہو تو نفسیاتی مسائل بڑھنے لگتے ہیں اور ایک پریشان ذہن ان میں الج کر راہ تلاش کرنے کے بجائے مریض بن کر ہی رہ جاتا ہے، تاوقتیکہ ان حالات میں اسے کسی دوسرے کی جذباتی رفاقت میسر نہ آئے۔
ایک وقت تھا کہ ہمسایوں میں اچھے تعلقات انسان کو جذباتی اور سماجی طور پر امید کی ڈھال فراہم کرتے تھے، ایک دوسرے سے دلوں کا حال کہہ کر جی کا بوجھ ہلکا کر لیا جاتا تھا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ دُکھ سُکھ سانجھے ہوتے تھے۔ انسان خوشی بھی سب کے ساتھ مل کر مناتا تھا تو دکھوں کا بوجھ بھی سب مل جُل کر اٹھاتے تھے۔۔۔۔۔ لیکن آج ماضی کی طرف نظر ڈال کر حال کی جانب پلٹیں تو ماجرا ہی کچھ اور ہے۔ دُکھ سُکھ کے سانجھے رشتے کہیں دور وقت کی دھول میں کھوتے جا رہے ہیں۔۔۔۔۔ اور انسان سماجی مصائب و آلات اور نفسیاتی دباؤ کا کثرت سے شکار ہو رہے ہیں۔۔۔۔۔ایسا کیوں ہے؟؟؟؟