غذائی الرجی۔۔۔۔۔۔وجود اور اسباب پر عالمی بحث

Posted on at


اگرچہ غذائی الرجی کے بارے میں عام طور پر کہا جاتا ہے کہ یہ اپنا وجود رکھتی ہے، لیکن حقیقت میں الرجی جسم میں کہاں پر موجود ہوتی ہے۔ یا یوں کہہ لیں کہ الرجی جسم کے کس حصے میں موجود ہوتی ہےجہاں پر وہ کسی کھائی گئی غذا کے عمل پر اپنا ردِ عمل ظاہر کرتی ہے، یہ بات ابھی تک متنازع اور بحث کا موضوع بنی ہوئی ہے۔ برٹش نیوٹریشن فاؤنڈیشن کی معالج ڈاکٹر سارہ شنکر کہتی ہیں کہ ‘‘ہزاروں لوگ جسم میں الرجی کی موجودگی کو جاننے کے لیے ڈاکٹروں کے پاس جاتے ہیں اور بھاری پیسے خرچ کر کے لیبارٹری ٹیسٹ کرواتے ہیں جو کہ حقیقت میں فضول ہیں۔’’ وہ کہتی ہیں کہ غذائی الرجی سے بچنے کے لیے ہم درجنوں ایسی غذاؤں سے بھی پرہیز کر لیتے ہیں جن کی کہ خوراک میں موجودگی صحت کے لیے نہایت ضروری ہوتی ہے، مگر اس طرح ہم اس خوراک سے خود کو دور کر کے اپنی ہی صحت کے لیے پیچیدہ مسائل کھڑے کر لیتے ہیں۔


 


غذائی الرجی کے حوالے چند مغربی ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ یہ صرف ایک فیصد آبادی پر ہی اثرانداز ہوتی ہے۔ اس کے برعکس بعض مغربی ماہرینِ غذائیت کہتے ہیں کہ غذائی الرجی تقریباً ایک تہائی آبادی کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے۔ غذائی الرجی کے وجود کے علاوہ اس کی تشریح پر بھی اختلافات موجود ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اکثر معالجین دمے کے حملے اور مونگ پھلی سے جسم پر اچھل آنے والے دانوں یا ان دنوں کے باعث ہو جانے والے بخار کو بھی الرجی کے ذمرے میں گر دانتے ہیں، جبکہ غذائی الرجی کے ناقدین اس تشریح سے متفق نہیں ہیں۔


 


معالجین جسم کی کسی شے سے حساسیت کی کیفیت کو نہایت خطرناک قرار دیتے ہیں۔ ان کی رائے میں جسم میں اگر کسی چیز سے بہت زیادہ حساسیت پیدا ہو جائے تو یہ جسم کے پورے نظام پر اثرانداز ہوتی ہے۔ اس کے نتیجے میں بلڈ پریشر کا دباؤ بڑھ سکتا ہے، حلق کے اندرونی حصے پر سوزش آسکتی ہے اور ان کے نتیجے میں تنفس کا نظام بگڑنے سے دمے کی شکایت بھی ہو سکتی ہے۔ غذائی الرجی کے ناقد معالجین کہتے ہیں کہ کھانے کا ہضم نہ ہونا یا کھائی گئی خوراک کا قے میں نکل آنا، جسم کی کئی اور بھی حالتوں کا سبب ہو سکتا ہے۔ ان حالتوں میں نیند پوری نہ ہونا، سردرد، تھکاوٹ، ایگزیما تک بھی شامل ہیں، جس کے باعث جسم کو خوراک ہضم کرنے کے بارے میں حساس ہو جاتا ہے۔ حساسیت کی یہ کیفیت جب جسم پر اثرانداز ہوتی ہے تو غذائی الرجی پر یقین رکھنے والے معالجین ان علامات کی بنیادی حقیقت کو سمجھنے اور جاننے کے بجائے اس الرجی کے کھاتے میں ڈھال دیتے ہیں۔


 


غذائی الرجی کے وجود اور اس کی عالمی تشریح سے قطع نظر اگر آپ بھی ان بعض لوگوں میں سے ہیں کہ جنہیں اکثر غذا ہضم نہیں ہوتی یا پھر اس سے جسم میں بعض تکلیف دہ علامتیں ظاہر ہوتی ہیں یا پھر یہ کہ کچھ غذاؤں کے استعمال سے قے یا ابکائی آنے لگتی ہے تو از خود تشخیص یا علاج کے بجائے کسی اچھے معالج سے مشورہ کریں۔ اس سلسلے میں ضروری ہے کہ آپ نہ صرف مرض کے بارے میں معالج کو تفصیل سے آگاہ کریں بلکہ جس وقت یہ رونما ہو، اس وقت آپ کی جو جسمانی کیفیت مثلاً تھکن، سردرد، نیند کا پورا نہ ہونا، اگزیما وغیرہ کے بارے میں بھی تفصیل سے بتائیں، تاکہ کسی عام جسمانی تبدیلی کے سبب رونما ہونے والی تکلیف کو الرجی کے کھاتے میں نہ ڈالا جا سکے۔ اسی طرح آپ کی تکلیف بھی جلد دور ہو سکتی ہے اور الرجی کی تشخیص کا سننے سے خود پر پڑنے والے جذباتی و نفسیاتی دباؤ سے بھی دامن بچا سکتے ہیں۔  




About the author

Asmi-love

I am blogger at filmannex and i am very happy because it is a matter of pride for me that i am a part of filmannex.

Subscribe 0
160