محمد منظور احمد جو کہ اپنی رہائش گاہ پر کپڑوں پر کڑھائی کا کام کرتا تھا۔ ایک دن وہ رات کو سیگرٹ لینے کے لیے باہر گیا جب وہ سیگرٹ لے کر واپس آرہا تھا تو راستے میں ایک گاڑی کھڑی تھی جس کے چاروں دروازے کھلے تھے۔ اس کے پاس سے گزرا تو ایک دم پولیس والے آئے اور انھوں نے اسے گاڑی میں ڈال لیا اور نامعلوم جگہ پر لے گئے۔
جب گھر والوں کو اس بات کا پتہ چلا کہ ان کا بچہ سیگرٹ لینے گیا واپس نہیں آیا تو وہ بہت پریشان ہوئے۔ صبح اخبار میں خبر آئی کہ کار چوروں کا سرغنہ کار چوری کرتا ہوا رنگے ہاتھوں پکڑا گیا ہے۔ پولیس کے اعلیٰ افسران نے ان پولیس والوں کو انعام و اقرام دینے کا فیصلہ کیا جنہوں نے یہ کام سر انجام دیا تھا۔ اس خبر کو جب اس شخص کے گھر والوں نے پرھا اور سنا وہ موقع کے ایس۔پی کے پاس گئے۔
اور انھوں نے جا کے ایس۔پی کو بتایا کہ جس شخص کو گاری چوری کرتے رنگے ہاتھوں گرفتار کیا ہے اس شخص نے اپنی زندگی میں سائیکل کے علاوہ کسی اور چیز کی ڈرائیونگ نہیں کی اور نہ ہی وہ اس کے اہل ہے۔ وہ ایک سادہ اور دیہاتی ہے اور محنت مزدوری کر کے اپنے بچوں کا پیٹ پالتا ہے۔ ان ایس۔ پی نے ماتحت ڈی۔ ایس۔ پی ہیڈ کواٹر کو انکوائری کے لیے مقرر کیا۔ کچھ دنوں کی انکوائری کے بعد ان ڈی۔ ایس۔ پی نے بتایا کہ یہ آدمی گناہ گار ہے اور اسے درست گرفتار کیا گیا ہے۔
جاری ہے۔