اللہ تعالی نے اس کائينات ميں بہت سی مخلوقات کو تخليق کيا ہے۔ اور ان تمام مخلوقات ميں سے صرف انسان کو ہی اشرف المخلوقات کہا ہے۔ مگر انسان کي حقيقت الگ ہی ہے۔ اللہ تعالی نے تمام مخلوقات کو پورا پورا علم سکھا کر اس دنيا ميں بھيجا۔ ليکن اللہ تعالی نے انسان کو جاہل پيدا کيا۔ انسان جب پيدا کيا گیا تو وہ کچھ بھی نہيں جانتا تھا۔ پھر اللہ تعالی نے اس کو وہ علم عطا کیا جو کسی بھی مخلوق کو نہيں دیا۔ اور يوں انسان کو اشرف المخلوقات کا خطاب ديا۔ جب اللہ تعالی نے انسان کو پيدا کرنے کا فيصلہ کيا تو فرشتوں نے اعتراض کيا۔ ليکن جب اللہ تعالی نے انسان کو پيدا کر ليا تو فرشتوں سے کہا کہ اسے سجدہ کرو، گويا اللہ پاک نے انسان کو فرشتوں سے افصل بنا ديا۔ اور فرشتوں سے کہا کہ جو ميں جانتا ہوں وہ تم نہيں جانتے۔
وہ کون سا علم ہے جو اللہ تعالی نے تمام مخلوقات کو سکھا کر اس دنيا ميں بھيجا سواۓ انسان کے؟وہ علم، ابتدائ علم ہے، جو ہر جاندار کو زندہ رہنے کے ليۓ ضروری ہوتا ہے۔ مثلا، جب بھی کوئ جاندار کا بچہ جنم ليتا ہے تو اسے زندہ رہنے کے ليۓ خوراک کی ضرورت ہوتی ہے۔ انسان کے علاوہ اللہ تعالی ہر جاندار کے بچے کو يہ سکھا کر دنيا ميں بھيجتا ہے کہ اسے اپنا رزق کيسے تلاش کرنا ہے۔ ليکن انسان کو وقت کے ساتھ ساتھ اتنا ہی علم عطا کرتا ہے جتنا اسے ضرورت ہوتا ہے۔ اور اسی علم کو جاننے کے ليۓ اس کے اندر جزبہ پيدا کرتا ہے۔ اور پھر وہی علم انسان کو سب سے افضل بنا ديتا ہے۔ اتنی فضيلت کہ علامہ اقبال نے اس فضيلت کو اپنے شعر ميں يوں بيان کيا ہے
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدير سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے، بتا تيری رضا کيا ہے
علامہ اقبال فکرونظر کے بہت اعلی انسان تھے. انہوں نہ اپنی ساری زندگی لوگوں کو اپنی شاعری کے زریعےاسلام کی دعوت دی ہے.اس شعرمیں بھی وہ مسلمانوں کو اس بات کی ترغیب دے رہے ہیں کے اگر دنیا اور آخرت دونوں میں کامیاب ہونا چاہتے ہو تو اپنے آپ اور اپنے پیدا کرنے والے کو پہچانو. تب ہی تم اپنی منزل تک پہنچ پاؤ گے
نوٹ
حصّہ دوم آگے پوسٹ میں شایع ہو گا