حضرت عمر فاروق کا انصاف۔۔۔۔۔

Posted on at



ابو موسیٰ الاشعری کے ساتھ ایک شخص تھا جس کی آواز اور مار سے دشمنوں کے دل دہل جاتے تھے ۔ بہر صورت اس شخص نے اور چند دوسرے اشخاص نے مل کر کچھ مال غنیمت حاصل کیا ۔ابو موسیٰ اس کو غنیمت میں اس کا حصہ دینا چاہا۔ مگر اس نے کہا کہ میں تو یہ تمام کا تمام مال غنیمت لوں گا اور محض اس کا ایک حصہ نہیں لوں گا۔ابو موسیٰ نے اس شخص کو بیس کوڑے رسید کیے اور اس کا سر بھی مونڈوا دیا ۔ اس آدمی نے سکون سے سزا تو برداشت کر لی مگر اپنے تمامم ترشے ہوۓ بال لے کر وہ سیدھا حضرت عمر کی بارگاہ میں پہنچا اور اپنے بال نکال کر بلا تکلف حضرت عمر کے سینے پر دے مارا۔پھر کہا۔


" امیر المؤمنین ! قصہ یہ ھے کہ دشمنوں پر میری زبردست دھاک بیٹھی ہوئی تھی اور یہ کہہ اس آدمی نے پورا قصہ سنا دیا ۔امیر المؤمنین نے فرمایا ۔ بخدا میرے نزدیک اس سے اور کوئی چیز محبوب نہیں ہو سکتی کہ تمام لوگوں میں اس شخص کی سی جراءت و بےباکی آ جاۓ۔


اس کے بعد حضرت عمر نے موسیٰ کے نام یہ مکتوب روانہ کیا ۔


اسلامُ علیکم ! "احوال اس پر کہ تم کو معلوم ھے کہ فلاں شخص نے مجھ تک یہ باتیں پہنچائی ہیں۔ اگر یہ باتیں درست ہیں اور تم نے اس شخص کا سر مونڈا ھے تو میں نے یہ طہ کیا ھے تم کو اس بات پر مجبور کروں کے تم بھی برملا اپنا سر منڈوانے کیلیے اس شخص کے سامنے بیٹھ جاؤ تاکہ یہ شخص تم سے قصاص لے سکے "۔


قصاص کی منزل آ پہنچی ۔ لوگوں نے کہا بھی ۔


بھائی جانے دو معاف بھی کر دو۔


مگر اس نے معاف کرنے سے انکار کر دیا۔


مگر جس وقت مصر کا جلیل القدر گورنر ، امیر المؤمنین کے حکم پر سر تسلیم خم کرتے ہوۓ قصاص کیلیے بیٹھ گیا تو آدمی نے آسمان کی طرف سر اٹھا کے کہا۔


۔" خداوند ! میں نے امیر کو معاف کیا"۔



About the author

SZD

nothing interested

Subscribe 0
160