خوشی خوشی اسکول کو چلے۔۔۔ کاش إ 2

Posted on at


خوشی خوشی اسکول کو چلے۔۔۔ کاش إ



 



اپنے آس پاس دیکھیں تو آپ کو ہر طرف ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہوہے والدین دکھاہی دیں گے جو اپنے بچوں کو اچھی نجی تعلیم دلوانا چاہتے ہیں۔ لیکن ایسے لوگ بمشکل نظر آہیں گے جو ٹیکس کے زریعے دوسرے لوگوں کے بچوں کی تعلیم کا خرچ اٹھانے پر آمادہ ہوں۔ ہر بچے کی تعلیم کے اخراجات اٹھانا ہمیشہ مشکل ہو گا اور اس کی معقول وجہ ہے۔ جب تک ہم سب کو اس بات کا احساس نہیں ہوگا کہ معاشرے کے محروم طبقے کے بچے کو تعلیم دینا ہمارے اپنے مفاد میں ہے ہمارے پاس کبھی اتنے وساہل نہیں ہونگے کہ تعلیم عام کی جا سکے۔




اچھا نظم و نسق اسی وقت ہوگا جب ٹیکس کے زریعے مقامی طور پر وساہل پیدا لیے جا سکیں گے۔ تعلیمی ٹیکس کو وہ فیس سمجھیں جو آپ اپنے بچے کو اسکول بھیجنے کی لیے ادا کرتے ہیں۔ اگر آپ ایسا کریں گے تو اس حوالے سے آپ اپنا موقف مضبوطی سے بیان کرسکیں گے کہ سرکاری رقم سے چلنے والے اسکول اچھی تعلیم دیں کیونکہ یہ اسکول آپ ہی کی محنت کی کماہی سے چل رہے ہیں یا رہے ہونگے۔
 




اچھا نظم و نسق خود بخود آہے گا کیونکہ آپ شہری والدین کی حیثیت سے اپنی آواز بلند کریں گے۔ ہم تعلیم کیلیے وساہل اکٹھے نہیں کرتے تو اس کی بہتری کیلیے آواز بھی نہیں اٹھا سکتے۔ اپنے آس پاس ایسے اسکولوں کو دیکھیں جو سرکاری وساہل استعمال کرتے ہیں لیکن ناکارہ نہیں۔ زیادہ تر یہ وہی اسکول ہونگے جو با اثر سول اور پالیسی ساز طبقات کے بچوں کو تعلیم دے رہے ہیں جیسے ڈسٹرکٹ اور ڈویژنل پبلک اسکول جیسے ایچی سن کالج اور متعدد کیڈٹ کالجز۔ خراب تعلیم و نسق صرف غریب بچوں کیلیے چلنے والے اسکولوں میں پایا جاتا ہے۔




 متعدد ملکوں کے شواہد سے ثابت ہے کہ جمہوری اداروں کی مضبوطی اور معیشت کی نمو بھی تعلیم میں اچھے نظم و نسق کا باعث بنتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حقیقی جمہوریت میں جو رہنما سیاسی اقتدار حاصل کتنا اور رکھنا چاہتے ہیں انہیں عوام کے مطالبات پر کان دھرنا پڑتا ہت۔ اگر اعلٰی سیاسی طبقے کو اقتدار میں رہنے کیلیے صرف چھوٹی سی مخلوط حکومت کی ضرورت ہو، جیسا کہ پاکستان جیسی ڈانواڈول جمہوریتوں میں ہے، تو انہیں تعلیمی نظام میں نظم و نسق کو بہتر بنانے کی کوہی ترغیب نہیں ملتی کیونکہ یہ نظام ان کے اتحادیوں کے ارکان کے بچوں کو تعلیم نہیں دیتا۔ سرکاری اسکولوں کی طرف سے یہ غفلت معاشی بحران کے زمانے میں اور نمایاں ہو جاتی ہے۔


 



 ایسے حالات میں اگر معاشرے میں سب کو تعلیمی مواقع فراہم کر دیے جاہیں تو ایک چھوٹے اور پہلے سے تعلیم یافتہ پالیسی ساز اعلٰی طبقے کے بچوں کے مواقع کم ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ اچھے تعلیمی نظم و نسق کیلیے آمریت سازگار نہیں۔  



About the author

qamar-shahzad

my name is qamar shahzad, and i m blogger at filamannax

Subscribe 0
160