حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور نظامِ حکومت(2)۔

Posted on at


 


ابنِ مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہُ کا ارشاد ھے۔ " حضرت عمر کی وفات سے علم کا دسواں حصہ ہی دنیا سے اٹھ گیا"۔ ان کی دین داری ، اصابتِ راۓ، مرد شناسی ، منصوبہ بندی، غلبہ و شوکت ، رعب و ہیبت، معاملہ فہمی عدالت، قوتِ فیصلہ ، فقاہت و شجاعت ایسے مسلہ امور ہیں جن پر قرآن و سنت کے بے شمار شواہد ہیں اور یہی وہ امور ہیں جو کسی حکومت کے منتظم کیلیے امتیازی اوصاف ہیں۔ لیکن اسلامی نظامِ حکومت چلانے کیلیے نا صرف یہی اوصاف ضروری ہیں بلکہ ایک ہمہ جہت اور ہمہ گیر شخصیت کے بھی متقاضی ہیں جو نظامِ حکومت کو مربوط اور واضح خطوط پر چلا سکے۔ حضرت عمر فاروق کی شخصیت نا صرف اسی معیار پر پوری اترتی تھی بلکہ ان کے دورِ حکومت کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ راۓ یقینی ہو جاتی ھے کہ خداوند قدوس نے آپ کی شخصیت اور خلافت اسلامی کے صحیح تشخص کو گویا آپ ہی کے قالب میں ڈھالا تھا۔ آپ کا نظام حکومت خالفتِ الہٰیہ کی سچی نیابت کا منہ بولتا ثبوت ھے۔


حقیقت تو یہ ھے کہ اسلامی نظام حکومت کے صحیح خدوخال اور اس کا حقیقی ڈھانچہ ہی نظام حکومت ھے۔ آپ کی حکومت نہ تو شخصی حکومت تھی اور نہ ہی جمہوری ، اس لیے نہ تو آپ فردِ واحد کی حکومت کے داعی تھے اور نہ ہی آپ کی حکومت جمہوری طریقے سے قائم ہوئی تھی جمہوریت سے ہماری مراد مغربی طرزِ حکومت کی جمہوریت ھے جہاں حکومتیں ووٹوں سے اور اکثریت سے بنتی ہیں ،اسلام کا نظامِ حکومت غیر شخصی غیر جمہوری ھے۔



About the author

SZD

nothing interested

Subscribe 0
160