سختی اب انتظامیہ کے لیے ہونی چاہیے 2

Posted on at


ہمارے اسکولوں میں ترغیباتی نظام اساتزہ کی کارگردگی یا سیکھنے میں طلبہ کی کامیابی پر مبنی نہیں۔تنخواہوں میں بلا امتیاز سب کو اضافہ دے دیے جاتے ہیں اور باقعدگی سے حاضر ہو کر اپنے فاہض انجام دینے والے اساتزہ اور غیر حاضر و تدریس میں بے قاعدگی برتنے والوں کے درمیان کوہی فرق نہیں۔ششم، کہی دہاہیوں سے امدادی اداروں کی جانب سے اساتزہ کی متعدد اسکیمیں جاری ہیں لیکن اساتزہ کی تربیت اور ان کے کارگردگی میں بہتری کے دامیان تعلق جننے کے لیے کوہی منظم تخقیق نہیں کی گی۔بیشتر اساتزہ کی نظر میں یہ تربیتی مواقع ص پیشہ وارنہ صلاحیت میں اضافہ کے لیے نہیں بلکہ معمول کے فراہض سے چھٹکارہ پانے اعر ٹی اے ڈی اے بنانے کا ذریعہ ہے۔

                     

ہفتم، پاکستان کے پسماندہ، دور دراز اور دشوار گزار علاقے آزادی کے بعد سخت مساہل کا شکار رہے ہیں۔ان علاقوں سے اساتزہ خصوصا خواتین اپنا تبادلہ کروا لیتی ہیں اور ترقی یافتہ علاقوں میں چلی جاتی ہیں۔نتیجہ کے طور پر ان پسماندہ اضلاع کے طلبہ کو ناقص معیار کی تعلیم نصیب ہوتی ہے۔تعلیم ترک کرنے کی شرحیں بلند ہیں اور جو کامیاب ہوتے ہیں وہ بھی ملازمتوں کے لیے مقابلہ کرنےکے لاہق نہیں ہوتے۔

               

یہ رحجان خواندگی کی کم شرحوں اور پسماندگی کی تقویت دیتا ہے کیونکہ ذراعت  اور مال مویشی جیسے قدرتی وساہل پہلے ہی قلیل ہیں اور انسانی وساہل پیدا نہیں کیے جا رہے۔ہشتم، کالج کی تعلیم وہ  ذیلی شعبہ ہے جو بے انتہا غفلت اور وساہل اور پالیسیوں کی کمی کا شکار رہا ہے کیونکہ غیر ملکی امدادوہندگان اور ملکی پالیسی ساز سب سے زیادہ توجہ پراہمری اور یونیورسٹی کی تعلیم پر دیتے ہیں۔کالجوں سے ناقص تعلیم پا کر فارغ  التحصیل ہونے والے افراد تعلیم یافتہ بے روزگاروں نوجوانوں کے مسلے میں اضافہ کر رہے ہیں کیونکہ یہ گریجویٹس معیشت میں دستیاب باہنر ملازمتوں کے لاہق نہیں۔

        

ساتھ ہی یونیورسٹیوں اور اعلی پیشہ وارنہ اداروں کے لیے ان کالجوں سے باہر آنے والا خادم مواداتنا کمزور ہے کے وہ اعلی تعلیم کا بوجھ مناسب طار پر اٹھانے کا اہل نہیں۔نہم، تکنیکی اور مختلف ہنر سیکھانے والی تعلیم میں داخلے کی شرح پاکستان میں صرف ایک فیصد ہے جبکہ ملک کے اندر اور باہر بھی باہنر اور تیکنیکی افرادی قوت کی ذبردست مانگ موجود ہے۔ہماری معشیت کے بیشتر شوبوں۔ذراعت، مینوفیکچرنگ، صحت وغیرہ۔

    



About the author

eshratrat

i really like to write my ideas

Subscribe 0
160