پیار سے مار سے نہیں ۔۔۔2۔۔۔۔

Posted on at



اسپارک کے ایک سروے  سے ظاہر ہوتا ہے کہ 76 فیصد والدین ایسی سزا کے ھق میں  ہیں اور سمجھتے ہیں کے بچے کا رویہ درست کرنے کے لئے تھوڑی بہت جسمانی سزا دینا درست ہے۔ نتائج سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ سروے میں شامل تمام اسکولوں میں جسمانی سزا دی جاتی ہے اور 33 فیصد بچوں کے اسکول چھوڑنے کا سبب یہی سزا ہوتی ہے۔ تربیتی کورس کرنے کے باوجود 87 فیصد اساتذا کے خیال میں بچے کا مزاج درست کرنے کے لئے تھوڑی بہت جسمانی سزا دینا ضروری ہے۔ سروے میں شامل طلبہ میں اس 93 فیصد کو کسی نہ کسی قسم کی جسمانی سزا دی گئی تھی۔

             


پاکستان نے 1990 میں بچوں کے حقوق کے متعلق اقوام متحدہ کے کنو نشن (یو این سی آر سی) پر دستخط کئے تھے۔ یو این سی آر سی کے تحت کسی بچے پرجسمانی یا نفسیاتی تشدد کی ممانعت کی گی ہے خواہ ہو تعلیمی یا ڈسپلن کے مقصد سے ہی کیوں نہ ہو۔ یو این سی آر سی کے دستخط کنندہ کی حیثیت سے پاکستان بچوں کے لئے گھروں، اسکولوں اور کام کرنے کے مقامات پر جسمانی ایزا دہی کے خلاف قانون سازی کا پابند ہے۔

          


فی الوقت پاکستان میں ایسا کوئی قانون موجود نہیں ہے جس میں واضح طور پر جسمانی سزا کی ممانعت کی گئی ہو۔ در حقیقت جسمانی سزا کے استعمال کو کچھ قانونی تحفظ حاصل ہے۔ پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 89 جس میں کہا گیا ہے، کوئی بھی کام جسے بارہ برس کی عمر سے کم شخص کے فائدے کے لئے نیک نیتی سے انجام دیا جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ جرم نہیں،۔

                           


اسکولوں میں جسمانی سزا کو روکنے کے اقدامات صرف نوٹی فیکیشنز اور ہدایت تک محدود دہتے ہیں۔ ان پر بہت کم عمل دیکھنے میں آتا ہے اور بہت کم اساتزہ کو اس کے متعلق آگاہی ہوتی ہے۔ پنجاب حکومت نے 2005 میںایک نوٹی فیکیشن کے ذریعے اسکولوں میں جسمانی سزا پر پابندی عائد کر دی تھی۔

                            

اسی طرح، 1999 میں خیبر پختون خواہ کے اسکولوں میں پابندی عائد کی گئی۔
2006 میں سندھ  کے اسکولون میں تشدد کے خلاف ہدایات جاری کی گئیں۔ بلوچستان حکومت نے 2010 میں اسکولوں میں جسمانی سزا دینے کے خلاف ہدایت نامہ جاری کیا تھا۔ لیکن یہ انتظامی اقدامات تبدیلی لانے میں ناکام رہے ہیں۔



About the author

eshratrat

i really like to write my ideas

Subscribe 0
160