قریب ہی ایک بستی تھی ، میں اس میں ٹھہرا ۔ وہاں ایک بڑے میاں سے ان تین قبروں کے کتبوں کا ذکر کیا اور ان پر اظہار تعجب کیا ۔ وہ بولے کہ ان کا قصہ اس سے بھی عجیب تر ھے ۔میری فرمائش پر انہوں نے بتایا کہ یہ تین بھائی تھے ۔ ایک بادشاہ کا حاشیہ بردار تھا ۔ سول اور فوج کے متعدد مناصب پر فائز تھا ۔دوسرا ایک امیر کبیر تاجر تھا۔ تیسرا عابد و زاہد تھا ۔ دنیا سے الگ تھلگ یادِمولا میں مشغول تھا ۔ عابد کی وفات کا وقت آیا تو اس کا وہ بھائی جو بادشاہ کا ہم نشیں تھا اور دوسرا بھائی جو تاجر تھا دونوں اس کے پاس آۓ اور اس سے وصیت کی فرمائش کی ۔ اس نے کہا : “ نہ میرے پاس مال ھے جس کو خرچ کرنے کی وصیت کروں ۔ نہ مجھ پر قرض ھے اسکی ادائیگی کی تاکید کروں ۔ نہ کچھ سامان چھوڑ کر جا رہا ھوں کہ اسکی تقسیم کے بارے میں کچھ کہوں ۔ البتہ ایک بات کا وعدہ کرو کہ تم اس کے خلاف نہیں کرو گے ۔ جب مروں تو مجھے کسی اونچی جگہ دفن کرنا اور میری قبر پر یہ قطعہ لکھ دو۔ (پہلا قطعہ جو اوپر نقل کیا گیا ھے ) بعد ازاں تین دن تک میری قبر پر آتے رہو تا کہ شاید تمہیں اس سے عبرت و نصیحت حاصل ہو”۔
دونوں بھائیو ں نے اسکی وصیت پوری کی ۔ تیسرے دن جب گورنر صاحب نے اپنے بھائی کہ قبر کی زیارت سے فارغ ہو کر واپسی کا ارادہ کیا تو قبر کے اندر سے کسی چیز کے گرنے کی آواز آئی ۔ جس سے وہ کانپ گیا اور نہایت خوف و وحشت کے عالم میں گھر لوٹا ۔ رات ہوئی تو مرحوم بھائی کو خواب میں دیکھا ۔ اس سے دریافت کیا کہ یہ خوفناک آواز کیسی تھی ؟ اس نت بتایا کہ یہ ہتھوڑے کی آواز تھی ۔ مجھ سے کہا گیا تو نے فلاں وقت ایک مظلوم دیکھا تھا مگر اسکی مدد نہیں کی تھی ۔ صبح ہوئی تو گورنر صاحب نے اپنے بھائی اور دیگر خواص کو جمع کیا اور انہیں بتایا کے کہ اس نے اپنے تمام موجودہ مشاغل سے دستکش ہونے کا فیصلہ کیا ھے۔ چنانچہ اس نے امارت و ریاست سے استعفیٰ دیا ۔ جنگل میں بسیرا کیا اور عبادت میں مشغول ہو گیا ۔ اس کی وفات کا وقت آیا تو اس کا تاجر بھائی حاضر ہوا اور اس سے وصیت کی فرمائش کی ۔اس نے کہا نہ میرے پاس مال ھے نہ کسی کا قرض ۔ البتہ میری درخوست ھے جب میں مروں تو مجھے اپنے بھائی کے پہلو میں دفن کرنا ۔ اور میری قبر پر یہ قطعہ لکھ دینا ۔ (یہاں جو دوسرا قطعہ اوپر درج کیا گیا ھے) اور تین دن تک میری قبر پر آتے رہو۔ اس کا انتقال ہوا تو اس کے بھائی نے اسکی وصیت کی تعمیل کی ۔ تیسرے دن جب قبر پر حاضری دے کر واپس ہونے کا ارادہ کیا تو قبر سے ایک خوفناک آواز سنائی دی ۔ جس سے اسکےحواس معطل ہو گئے اور کانپتا ہوا گھر لوٹا ۔ رات ہوئی تو بھائی کو خواب میں دیکھا اور حال احوال دریافت کیا ۔ اس نے بتایا کہ ہر طرح خیریت سے ہوں اور توبہ خیر کو جمع کر ہی دیتی ھے۔ پوچھا کہ ہمارے بارے میں تمہارے یہاں کیا قانون ھے ۔اس نے بتایا کہ جس نے جو کچھ آگے بھیجا ہو ، وہ اسے مل ہی جاتا ھے۔اس لئے تم ناداری سے قبل اپنی مالداری کو غنیمت سمجھ کر اس فائدہ اٹھاؤ ۔ صبح تو تیسرے بھائی نے بھی توبہ کی ، دنیا کے عیش و آرام کو خیر باد کہا ۔ مال ع دولت فقراء و مساکین میں تقسیم کر دی اور تمام مشاغل سے کنارہ کش ہو کر عبادت میں مشغول ہو گیا ۔اب کاروبار اس کے لڑکے نے سنبھال لیا۔اس کی وفات کا وقت آیا تو صاحبزادے نے حاضر ہو کر عرغ کیا کہ ابا جان کوئی وصیت فرمائیں ۔ جواب دیا بیٹا میرے پاس کوئی مال نہیں جس کی وصیت کروں البتہ جب مروں تو مجھے دونوں بھائیوں کے پہلو میں دفن کرنا اور میری قبر پر یہ قطعہ لکھنا ۔( یہاں تیسرا جو اوپر درج ھے) اس کے بعد تین دن تک میری قبر پر آتے رہو۔
بیٹے نے باپ کی وصیت پوری کی ۔ تیسرے دن جب قبر پر آیا تو قبر کے اندر سے مہیب آواز سنی ۔ خوف سے کانپ اٹھا اور اسی حالت میں گھر لوٹا ۔ رات ہوئی تو والد صاحب کو خواب میں دیکھا ۔ حال احوال دریافت کیا۔ باپ نے کہا : بیٹا تھوڑے دن بعد تو ہمارے پاس آ پہنچے گا ۔ معاملہ بڑا سخت ھے ۔ اس لیے طویل سفر پر روانہ ہونے کی تیاری جلدی کر لو اور جس منزل سے کوچ کرنے والے ہو وہاں سے اپنا سامان اس منزل میں منتقل کر لو ۔ جس میں تم کو رہائش اختیار کرنی ھے۔ بس بیٹا جلدی کرو ، جلدی کرو ، جلدی کرو۔
بڑے میاں نے بتایا کہ جس رات اس نوجوان نے خواب دیکھا اس کی صبح کو میرے پاس آیا اور اپنے خواب کا قصہ بیان کیا اور کہا کہ میرے والد صاحب نے مجھے تین بار جلدی کرو ، جلدی کرو ، جلدی کرو کا حکم دیا ھے۔ اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ میری زندگی کے تین مہینے یا تین دن باقی رہ گئے ہیں ۔ چنانچہ تیسرا دن ہوا تو اس نے اپنے اہل و عیال کو بلا کر انہیں رخصت کیا اور رات آئی تو قبلہ رخ ہو کر کلمہء شہادت پڑھتے ہوۓ جان، جان آفرین کے سپرد کر دی۔