بہوؤں والے گھرمیں لڑکیاں کچھ زیادہ ھی آرام طلب اور کام چور ھو جاتی ہیں اور اوپر سے ماں کی بیٹیوں کی طرفداری بیٹیوں کو بالکل ھی سست کر دیتی ھے۔ اس طرح کام کا سارا بوجھ بہوؤں پر آجاتا ھے۔ اور زیادہ کام ھونے کی وجہ سے بہوئیں انہیں بہتر طریقے سے انجام نہیں دے پاتیں جس کے نتیجے میں انہیں سسرال والوں کی باتیں سننا پڑتیں ہیں۔
پھر جب بیٹیوں کے رشتے طے ھوتے ہیں تب ماؤں کو فکر لگ جاتی ھے کہ بیٹی کھانا پکانا سیکھ لے پھر افراتفری میں انہیں الٹا سیدھا سکھا کر ٹائم گزار دیتی ہیں۔ ذرا سوچیں اگر ماں کی سوچ ھی ٹھیک نہ ھو تو وہ اپنی بیٹی کی کیا تربیت کرے گی۔
کیا آپ کو یہ اچھا لگے گا کہ کوئی آپ کی بیٹی کو پھوہڑ اور بد سلیقہ کہے؟ نہیں نہ ! تو پھر بچیوں کو شروع سے ھی اچھی روش اختیار کرنے کی تلقین کریں اور انہیں اپنے ساتھ کام کاج میں لگائیں انہیں گھر اور گھر کی ذمے داریوں سے آگاہ کریں۔
جب بیٹی سکول کالج سے واپسی پر گھر میں داخل ھوتو اس کا محبت سے استقبال کریں تاکہ وہ اگلے گھر جاکر اسی طرح اپنے شوھر کا استقبال کرنا سیکھے اور ھر ایک سے اخلاق سے پیش آئے۔ نہ کہ اس کی تربیت ایسی ھو کہ اس کے سسرال والے اس کی عادتوں سے تنگ آجائیں۔
ماؤں کو چاہیے کہ بیٹٰوں کو غلط مشورے دے کر سسرال نہ بھیجیں اس سے ان کا اپناوقار بھی متاثر ھوگااور ان کی تربیت پر بھی بات آئے گی۔ اور بیٹی کی زندگی میں بھی زھر گھلے گا۔ بعض مائیں بیٹیوں کو ایسے مشوروں سے نوازتی ہیں کہ شوھر کو مٹھی میں کیسے رکھنا ھےنندوں اور دیوروں سے کیسا سلوک کرنا ھے یہ سب بہت غلط ھے۔ ایسی مائیں اپنی بیٹیوں کے گھر خود خراب کرتی ہیں۔
درست طریقہ یہ ھے کہ بیٹی بیاہنے کے بعد بلاوجہ بیٹی کے گھر کے معاملات میں دخل اندازی نہ کریں اسے خود اپنے گھر کے معاملے ہینڈل کرنے دیں۔ کیونکہ انسان تجربات سے ھی سیکھتا ھے۔ بے جا لاڈ پیار آپ بیٹی سے کریں یا بیٹے سے وہ دونوں کو ھی بگاڑ دے گا اس لئے آج ھی سے اپنی بچیوں کی اچھی تربیت کا عہد کر لیں اور ان کو میکے سے سارا ھوم ورک کروا کہ سسرال بھیجیں تاکہ وہ مستقبل میں اچھی مائیں، بہوئیں اور بھابیاں بنیں۔ بیٹیوں کی محبت میں کبھی غلط فیصلہ نہ کریں۔