میں تھوڑی کوشش کے بعد شور کی سمت کا اندازہ کرنے میں کامیاب ہو گیا اور پھر اسکی طرف چلا گیا ایک گھر کے سامنے کچھ عورتیں سینہ کوبی کر رہی تھیں اور اکا دکا لوگ بھی جما ہو رہے تھے گھر میں داخل ہوے تو دیکھا کہ باپ بیٹا زمین پر خون میں لت پٹ پڑے تھے. انہیں گولیاں لگی تھیں اور لوگ انکے ارد گرد جمع ہو رہےتھے . کچھ لوگ اسے ڈکیتی کی واردات قرار دے رہے تھے بہرحال اس وقت تو معاملہ انسانی جانیں بچانے کا تھا .
چودھری حمید اس گاؤں کے سماجی رہنما ہیں وہ بھی پہنچ گئے تھے لوگوں کی اپس میں باتیں جاری تھیں.چودھری صاھب فورن اپنی گاڑی لے ہے اور لوگوں نے دونوں زخمیوں کو گاڑی میں بٹھایا. میں بھی گاڑی میں بیٹھ گیا کچھ افراد پیچھے پیچھے اپنی سواری پر آ گئے. سردیوں کی خوفناک رات اور زخمیوں کی کراہنے کی آوازیں میں نے اس سے پہلے اپنی زندگی میں ایسا منظر نہیں دیکھا تھا ایک مرتبہ میں نے زخمیوں کو سمبھالنے کی کوشش کی تھی اس لئے میرے کپڑے بھی خون میں رنگ گئے تھے
کوئی پندرہ منٹ بعد ہم لوگ ہسپتال کی ایمرجنسی میں پہنچ گئے تھے ایمرجنسی میں موجود ڈاکٹر سے سارا واقعہ بتایا پہلے تو ڈاکٹر ہچکچاہے لیکن پھر اس نے زخمیوں کو طبی امداد دی. باپ کے ایک گولی دائیں بازو میں لگی تھی اور بیٹے کو ایک گولی ٹانگ میں لگی تھی اور ایک پیٹ میں لگی تھی. باپ بار بار شفقت سے بیٹے کی طرف دیکھتا تھا اور یہی کہتا تھا کہ مجھے رہنے دو بس میرے بیٹے کو دیکھو.
ڈاکٹر نے چیک کرنے کے بعد بتایا کے باپ کی حالت تو خطرے سے بہار ہے لیکن بیٹے کا خون بہت زیادہ بہ چکا ہے اس لئے جلد خون کا بندوبست کیا جاۓ.