اکتوبر ٢٠٠٥ میں انے والے زلزلے نے بوہت ہی زیادہ تباہی مچایی مجھے آج بھی اچھی طرح یاد ہے کہ میں صبح جب اٹھا تو بوہت ہوا چل رہی تھی ہر طرف اداسی چایی ہوئی تھی -جیسے ابھی کچھ برا ہونے والا ہے اور ووہی ہوا -تھوڑی ہے ہیر بعد جب
میں گھر میں اپنی امی کے ساتھ باتیں کر رہا تھا -کہ امی آج دن کچھ اداس سا لگ رہا ہے امی نے کہا ہاں مجھے بھی کچھ ایسا ہی لگ رہا ہے اس کے بعد اچانک سے ایک زور دار جھٹکا آیا اور سب کچھ ہلا کر رخ دیا میں نے اپنی امی کا ہاتھ پکڑا اور ایک درخت کو مضبوطی سے پکڑ لیا
وو درخت اتنی تیزی سے حل رہا تھاجیسے ہمیں بھی ساتھ اچھال رہا ہو ایک عجیب سا خوف انے لگا زمین جیسے اچھل رہی ہو ،جب تھوڑی دیر کے بعد زلزلہ تھما تو ہم نے تی وی لگا کر دیکھنا شروح کیا تا کہ پتا چل سکے کہ کتنا نقصان ہوا ہے اور تمام چینل پر بلا کوٹ ،آزاد کشمیر مظفر آباد میں سب سے زیادہ تباہی دیکھا رہے تہے
اور اس کے بعد جب ٣ دن گزرے تو جگہ جگہ لاشیں دیکھا رہے تہے اور ہمارا دل خون کے آنسو رو رہا تھا کیوں کہ ہم سب قدرت کی مرضی کے آگے بے بس تہے اس کے بعد ٹی وی پر لوگوں کے گھر دکانیں سب کچھ ختم ہو گیا اور کتنے ہی معصوم بچے بھی اس زلزلے کی نظر ہووے آج بھی جب اکتوبر ٢٠٠٥ کے زلزلے کا ذکر کیا جاتا ہے تو ایک خوف سا طاری ہو جاتا ہے
خیر اس کے بعد زلزلہ تو تھم گیا لیکن جب آفٹر شاکس کا سلسلہ شورح ہوا تو لوگوں کی رات کی نیندیں اوڑھ گیئں لوگ خوف زدہ ہو گئے تہے کہ کہیں پھر سے زوردار زلزلہ نہ ا جائے اور یہ سلسلہ مسلسل ٣ دن تک جاری رہا ،
اس کے بعد جب ہم اببوتآباد گیے تو وہاں بھی تباہی مچی ہوئی تھی اور لوگ بوہت ہی خوف زدہ تہے اس زلزلے نے لاکھوں لوگوں کی جان لی اور ہزاروں لوگ معذور ہووے اور لاکھوں لوگ اپنے گھروں سے محروم ہو گئے آج بھی اس کا ذکر ہمارے رونگٹے کھڑے کر دیتا ہے یہ پاکستان کا سب سے مصیبت زدہ دن تھا جو کہ پاکستان کے لوگوں کو ہمیشہ یاد رہے گا
بس اللہ ہمیں اپنی انے والی اور مصیبتوں سے بچاے اور اپنی امان میں رکھے امین