خوشی میں بھی غم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Posted on at


گزشتہ دو دن مسلسل سفر میں رہا ، سفر کی وجہ سے بدن ٹوٹا ٹوٹا سا تھا، تھکاوٹ کے آثار چہر ے سے واضح نظر آتے تھے جبکہ پاؤں جسم کا بوجھ اُٹھانے سے معذوری ظاہر کر رہے تھے غرض پورا بدن آرام کا متقاضی تھا اور میں سفر کے ختم ہونے کا منتظر تھا کہ کب سفر ختم ہو گا اور بستر پر جسم دراز کر وں گا،اللہ اللہ کر کے سفر ختم ہو ا اور آتے ہی پہلا کام یہ کیا کہ اپنا موبائل فون بند کر دیا تا کہ نیند میں خلل واقع نہ ہو ، فون بند کرنے کے بعد بستر پر لیٹا ہی تھا کہ نیند دورتی چلی آئی اور بیداری پہ غلبہ پا لیا، اب نیند تھی او ر میں تھا، کئی گھنٹے آرام کرنے کے بعد جب آنکھ کھلی تو چاروں سو روشنی ہی روشنی تھی دن کا کافی حصہ بیت چکا تھا، میں نے جیب ٹٹولتے ہوئے اپنا موبائل فون نکال کے آن کیا تو پے در پے میسجوں کی بھر مار شروع ہو گئی میسج پڑھنے شروع کیے تو سب سے زیادہ میسج جس شخص کے تھے وہ میرا قریبی دوست تھا، میرے اس دوست کا مزاج ہے کہ یہ ایک سے زائد بار نہ کال کرتا ہے اور نہ ہی میسج ، اگر کوئی ضروری کام بھی ہو تو تب بھی ایک بار کال کرتا ہے میں کال نہ اٹھاؤں تو میسج کر دیتا ہے کہ فارغ ہو کے مجھ سے رابطہ کرنا کوئی بات کرنی ہے، لیکن آج کثرت کے ساتھ اس کے میسج دیکھ کے گھبرا گیا کہ میرے دوست کو کیا ہو گیا ہے کہ ا س کا ہر میسج شکوؤں سے پُر ہے، جس میسج کو بھی کھولا تو ایک جملہ ضرورپڑھنے کو ملا کہ آپ بھی آخری وقت میں میرا ساتھ چھوڑ گئے آپ کو ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا، چلو کوئی بات نہیں میں خوشی اکیلے منا لوں گا میرے لیے خدا کی ذات کافی ہے، میں یہ کڑوے جملے پڑھ کے ہضم نہ کر سکا اور فوراً اسے فون کر کے اصل صورتحال سے آگاہ کیا کہ میں سفر میں تھا، تھکاوٹ کی وجہ سے موبائل بند کیا ہے آپ کی وجہ سے نہیں آپ کو تکلیف ہوئی ہے جس پر میں معذرت خواہ ہوں، میر ی معذرت قبول کرنے کے بعد اس نے کہا کہ جمعہ کے دن میری دستار بندی ہو گی آپ نے اس میں شرکت کرنی ہے میں نے نہ چاہتے ہوئے بھی شرکت کی حامی بھر لی اور وعدہ کیا کہ آپ کی اس محفل کا حصہ ضرور بنوں گا، حالانکہ میں جمعہ کے دن کسی محفل میں شریک نہیں ہوتا سوائے جمعہ کے اجتماع میں،لیکن یہ شخص ایسا ہے کہ جس کے سامنے میں انکا ر نہیں کر سکتا اس لیے کہ یہ میرے چھوٹے بھائیوں کی طرح ہے اور دوسرا ہم استاد بھائی ہیں ہم نے اٹک اکھٹے ایک جامعہ میں تعلیم حاصل کی اگرچہ یہ مجھ سے کئی کلاسیں پیچھے تھا لیکن بعض قدر مشترک چیزوں کی وجہ سے ایک دوسرے کے قریب آنے میں وقت نہیں لگا، یہ ہماری محبت ہی تھی جو اسے مانسہرہ لے آئی حالانکہ وہ کہاں کا رہنے والا اور شہر مانسہرہ کہاں؟ مانسہرہ آکے اس نے جامعہ منہاج العلوم میں داخلہ لے لیا اور اپنی تعلیم مکمل کرنے لگا اب اس کی بارات تھی جس میں ا س نے دولھا بننا تھا اور دستار سجانی تھی، مجھے بھی خوشی تھی کہ چلو میرا کو ئی دوست فارغ التحصیل ہو کے دین کی خدمت کرے گا، نماز جمعہ کے فوراً بعد میں اس کی درسگاہ چلا گیا وہاں جب پہنچا تو اس کا آخری سبق جاری تھا جو اس کے استا د مولانا فیض الباری صاحب پڑھائے جا رہے تھے، مولانا فیض الباری صاحب اپنے مخصوص انداز میں کچی کچی اردو کے ساتھ آخری حدیث جب پڑھا چکے تو اب ہماری باری تھی کہ ہم اس کو مبارک دیتے ، میں جلدی میں اٹھ کر ا سکو مبارک باد دینے کے لئے آگے بڑھا اور اس کو گلے لگا کے مبارک باد دی تو اس کے آنسو چھلک پڑے ، میں ان آنسوؤں کو خوشی کے آنسو سمجھا لیکن یہ خوشی میں غم کے آنسو تھے میں نے جب اسے دلاسہ کیا تو وہ زار و قطار رونے لگا جیسے کوئی معصوم بچہ بلک بلک کے روتا ہے، میں نے اپنے دوست سے آنسوؤں کی وجہ پوچھی تو اس نے ایسا جواب دیا کہ جس نے مجھے اند ر سے کھنڈر کر دیا، اس نے ہاتھوں کی انگلی سے دوستوں کی طرف اشارہ کیا اور بتایا کہ یہ سب میرے ہم سبق ہیں آپ ذرا کھڑے ہو کے دیکھیں کہ انہیں مبارک دینے والے کتنے ہیں ؟ کتنے لوگ ان کے گلے میں ھار ڈالیں گے؟ کتنے لوگ ان کے سینے کے ساتھ لگیں گے؟ اور پھر آخر میں میری طرف بھی دیکھنا کہ میرے سینے کے ساتھ کون کون لگتا ہے؟ میرے گلے میں کتنے ھار ڈالے جائیں گے؟ میں اس کا جواب سُن کے بُت کی مانند کھڑا ہو گیا اور یہ منظر دیکھنے لگا اوراپنے سوال کا جواب ڈھونڈنے کی سعی میں لگ گیا ، جب سب لوگ فارغ ہوئے توا س نے مجھے کہا کہ بھری بزم میں اپنی تنہائی پر آنسو نہ بہاؤں تو کیا کروں ؟ میں نے پوچھا کہ آپ کا بھائی ، رشتہ دار یا والد صاحب میں سے کوئی بھی نہیں آیا ؟ تو اس نے سر ہلاتے ہوئے نفی میں جواب دیا کہ نہیں ، میں نے پوچھا کیوں ؟ تو اس نے کہا کہ اس کیوں کاجوا ب نہ ہی مانگو تو اچھا ہے، مجھے صبح صبح ان رشتوں کی کمی محسوس ہوئی لیکن میں نے اس کمی کو پورا کرنے کے لیے ایک حل نکالا اور پھر اس پر عمل کرنا شروع کر دیا ، میں نے پوچھا کیا حل نکالا رشتہ داروں کی کمی پورا کرنے کا تواس نے کہا کہ میں نے صبح صبح مدرسے کے ستونوں کے ساتھ اپنا سینہ لگا یا اور آنکھیں بند کر کے خیر مبارک کہتا جاتا اور آگے بڑھتا جاتا سب ستونوں کے ساتھ گلے لگ کے آخری ستون کے پاس پہنچا تو پھر خیال آیا کہ پیچھے مڑ کے دیکھوں کوئی دیکھ تو نہیں رہا ، میں نے پیچھے مڑ کے دیکھنے کی کوشش کی لیکن آنسوؤں کی دھند میں کوئی نظر نہ آیا اور آخری ستون کے پاس بیٹھ کے جی بھر کے رویا اور خونی رشتوں کا ایک ایک ظلم رہ رہ کے یاد آیا اور دل میں وعدہ کیا کہ صبر سے کام لوں گابدلہ نہیں لوں گا اجر اپنے رب سے لوں گا ، میں خونی رشتوں کے سب ظلم و ستم بھول جاؤں گا لیکن دو باتیں کبھی نہیں بھولوں گا، ایک مجھ سے میرا باپ چھیننا اوردوسرا ماں پہ ہونے والے ستم ، پھر اس نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کو پتا ہے کہ میرا بچپن میرے باپ کے پیار سے خالی ہے میں نے مدتوں با پ کی مسکراہٹ نہیں دیکھی ، میں آج دن تک نہیں جانتا کہ باپ کا پیا ر کیا ہوتا ہے، میں اسکول جاتے بچوں کو باپ کے کندھوں پہ بیٹھا دیکھ کے انگلیاں دانتوں میں دبا ئے سوچوں میں گم ہو جاتا ہوں او ر پھر خود سے پوچھتا ہوں کہ واقع باپ ایسے ہوتے ہیں ؟ اگر جواب ہاں میں ضمیر دے تو پھر خود سے پوچھتاہوں کہ میرا باپ ایسا کیوں نہیں ہے، انہیں بھائی کیوں پیارے ہیں اولاد سے ،پھر اپنے چچا ظہور کا نام لے کر کہا کہ اسے معاف نہیں کروں گا اس نے مجھے باپ کی محبت سے محروم رکھا ہے، اور دوسرا اپنی ماں پہ ہونے والے ستم یہ بھی نہیں بھولتے ، میری ماں نے بھوکا رہ کے ہمیں کھلا یا، خود پیاسا رہ کے ہمیں پلایا ، خود ننگے پاؤں چلی اور ہمیں جوتے پہنائے ، اگر مجھے دینی تعلیم کا علم نہ ہوتا تو میں کیسے یقین کر تا کہ ماں کے قدموں تلے جنت ہے میں نے ماں کے پاؤں تلے جوتا نہیں دیکھا جنت پہ یقین کیسے کرتا، مجھے ماں کے خاک آلود ہاتھ نہیں بھولتے میری آنکھوں کے سامنے وہ منظر ابھی تک ہے کہ جب میری ما ں میرے والد کا نام لیتے لیتے رونے لگ گئی اور دوپٹے سے آنسو صاف کرنے لگی میں نے ماں کو گلے سے لگا یا اور رونے کی وجہ پوچھی تو انہوں نے آہ بھرتے ہوئے کہا بیٹا ویسے آنکھوں سے پانی بہہ نکلا کوئی وجہ نہیں ہے، مجھے کچی عمروں میں بھائیوں کا مزدور بننا نہیں بھولے گا، کیا یہ ظلم معافی کے قابل ہیں؟ میں نے خاموشی میں عافیت سمجھی اور ارد گرد دیکھنے لگا ، مجھے اشفاق احمد یاد آئے جو کہتے تھے کہ غریب خود کشی اس وجہ سے نہیں کرتا کہ وہ غریب ہے بلکہ اس لیے کرتا ہے کہ اسے رونے کے لیے کندھا نہیں ملتا، مجھے خوشی ہوئی کہ چلو میں تو آگیا اگر میں نہ آتا تو میرے دوست نے مر جانا تھا اورمیرا یہ وہی دوست ہے جس نے چند دن قبل مضمون لکھاتھا ،انہیں کیسا پایا؟؟؟؟؟؟؟



About the author

MadihaAwan

My life motto is simple: Follow your dreams...

Subscribe 0
160