بنی اسرئیل کا ایک یتیم بچہ ہر کام اپنی والدہ سے پوچھ ان کی مرضی کے مطابق کرتا تھا۔اس یتیم بچہ نے ایک گائے پالی اورہر وقت اسکی دیکھ بال میں مصروف رہتا تھا ۔ایک فرشتہ انسانی شکل میں اس بچے کے سامنے آیا اور گائے خریدنے کا ارادہ ظاہر کیا بچے نے قیمت پوچھی تو فرشتے نے بہت تھوڑی قیمت بتائی جب بچے نے اپنی والدہ کو اطلاع دی اس نے انکار کر دیا۔ فرشتہ نے دوسری بار قیمت بڑھا کر پوچھا کہ اب مجھے دے دو لیکن بچے نے پھر اپنی والدہ سے جاکر پوچھا والدہ نے پھر انکار کر دیا اس طرح فرشتہ بار بار قیمت بڑھا کر اسے کہتا رہا اور وہ بچہ ہر بار جاکر والدہ سے پوچھ کر جواب دیتا رہا۔جب کئی بار ایسا ہوا تو بچے نے محسوس کیا کہ میری والدہ گائے بیچنے پر راضی نہیں ہے لہذا اس بچے نے فرشتہکو صاف انکار کر دیا کہ گائے کسی بھی قیمت پر نہیں بیچی جا سکتی۔فرشتے نے کہا کہ تم بڑے خوش بخت اور خوش نصیب ہو کہ ہر بات اپنی والدہ سے پوچھ کر کے کرتے ہو عنقریب تمہارے پاس کچھ لوگ اس گائے کو خریدنے کیلئے آئیں گے تو تم اس گائے کی خوب قیمت لگانا ۔دوسری طرف بنی اسرائیل میں ایک آدمی قتل ہو گیا قاتل کو معلوم کرنے کے لئے بنی اسرائیل کو جس گائے کی قربانی کا حکم ملا تھا اس طرح کی گائے اسی بچے کے پاس تھی صرف۔چنانچہ بنی اسرائیل کے لوگ جب اس بچے کے پاس گائے خریدنے کے لئے آئے تو اس بچے نے کہا کہ اس کی قیمت اس کے وزن کے برابر سونا ادا کرنے کے برابر ہے ۔ بنی اسرائیل والوں کی مجبوری تھی لہذا انہوں نے اتنی بھاری قیمت ادا کر کے وہ گائے خرید لی ۔علماء نے لکھا ہے کہ اس بچے کو یہ دولے والدہ کے ادب اور اسکی اطاعت کی وجہ سے ملی ۔معلوم ہوا کی والدہ کی خدمت کا بدلہ کچھ صلہ اس دنیا میں بھی دے دیا جاتا ہے ۔
اسی طرح کا ایک دوسرا واقعہ آتا ہے کہ ایک نوجوان اپنے والدین کا ادب کای کرتا تھا اور ہر وقت انکی خدمت میں مشغول رہتا تھاجب والدین کافی عمر رسیدہ ہو گئے تو اس کے بھائیوں نے مشورہ کیا کہ کیون نہ اپنی جائیداد والدین کی زندگی میں ہی تقسیم کر لی جائے تاکہ بعد میں کوئی جھگڑا نہ ہو ۔اس نوجوان نے کہا کہ آپ تمام بھائی جائیداد کوپس میں تقسیم کر لیں اور اسکے بدلے مجھے اپنے والدین کی خدمت کا کام سپرد کر دیں ۔دوسرے بھائیوں نے خوشی کے ساتھ یہ کام اس نوجوان کے سپرد کر دی ۔یہ نوجوان سارہ دن محنت مزدوری کرتا پھر گھر آ کربقیہ وقت میں ماں باپ کی خدمت کرتا ۔ وقت گرتا گیا اور وہ وقت آگیا کہ اسکے والدین وفات پا گے ۔ایک دن یہ نوجوان رات کو سو رہاتھا کہ اس نے خواب میں دیکھا کہ کوئی کہنے والا کہتا ہے کہ اے نوجوان ، تم نے اپنے والدین کا ادب کیا انکو راضی رکھا،انکی خدمت کی ،اس کے بدلے تمہیں انعام دیا جائے گا،جاؤ فلاں دیوار کے نیچے ایک دینار پڑھا ہوا ہے وہ اٹھا لو اس میں تمہارے لئے برکت رکھ دی گی ہے ۔یہ نوجوان صبح کے وقت بیدا ہوا۔تو اس نے اس چٹان کے نیچے جاکر دیکھا تو اسے ایک دینار مل گیا۔ اس نے وہ دینار اٹھا لایا اور خوشی خوشی گھر کی طرف روانہ ہو راستے میں ایک مچھلی فروش کی دوکان سے گزرتے ہوئے اسے خیال آیا کہ اس دینار کے بدلے ایک مچھلی خرید لی جائے تاکہ بیوی بچے آج اسکا کباب بنا کھائیں۔چناچہ اس نے دینار کے بدلے ایک مچھی خریدلی ۔جب گھر واپس آیا تواسکی بیوی نے مچھلی کو پکانے کے لئے کانٹاشروع کیا ۔پیٹ چاک کیا تو اس میں سے ایک ہیرانکلا۔نوجوان اس ہیرے کو دیکھ کر بہت خوش ہو جب بازار گیا اس ہیرے کو فروخت کیا تو اس سے اتنی رقم ملی کہ اسکی ساری زندگی کا خرچہ پورا ہوگیا اور اسکے حالات اچھے ہو گے مال دولت کی فروانی ہوگی ۔
(بحوالہ بکھرے موتی جلد ہشتم ص729) ان واقعات سے معلوم ہو گیا کہ جو انسان دنیا میں اپنے والدین کی خدمت کرتے ہیں آخرت مین اس کا بدلاتو ہے ہی لیکن دنیا کے اندر بھی اللہ تعالی اس کا بدلا عطا ء کر تے اور جو والدین کا نافرمان ہوتا ہے اس کو آخرت میں اسکی سزا تو ضرور ملے گی مگر دنیا میں بھی اسکو والدین کی نافرمانی پر اللہ عذاب میں مبتلا کردیتے ہیں ۔آج کل بشمول پاکستان اور دنیا کے ممالک میں ماں کا عالمی دن تو منایا جاتا ہے مگر آج کے نوجوان اور اولاد ماں باپ کا ادب احترام کرنے کے بجائے انکی خدمت کرنے کے بجائے انکی زندگی کو تنگ کر رکھ دیتے ہیں کوئی ایک آدھ نہیں بلکہ ہزاروں مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں۔ معاشرتی زندگئی میں اگر سب لوگوں کو جائز حقوق ملتے رہیں تو وہ سکون آرام کے ساتھ اپنی صلاحتیں معاشرے کی ترقی کے لیے استعمال کر سکتے ہیں اور اس طرح ماحول خوشگوار بن سکتا ہے جسے حسن معاشرت کہا جا تاہے اس کے برعکس آپس میں ایک دوسرے کے حقوق مارنے کی روش بے چینی اور کش مکش پیدا کرتی ہے اس سے معاشرہ کا نظم بگڑتا ہے اور تخریبی رحجانات تعمیری صلاحیتوں کو مفلوج کر دیتے ہیں اللہ تعالی نے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو اپنی ہدایات سے محروم نہیں رکھا اس نے انسانون کے درمیان حقوق کا واضح تعین کر کے ان کی ادائیگی کو اپنی خوشنودی اور ادا نہ کرنے کو اپنی ناخوشی کاسزاوار ٹھیرایا معاشرے میں جن ہستوں سے زیادہ مدد ملتی ہے وہ والدین ہیں دنیاء میں صرف والدین کی ہی زات ہے جو اپنی راحت اولاد کی راحت پر قربان کر دیتی ہے والدین کی شفقت اولاد کے کیے رحمت باری کا وہ سائبان ثابت ہوتی ہے جو انھیں مشکلات زمانہ کی دھوپ سے بچاکر پروان چڑھاتی ہے انسانیت کا وجود اللہ تعالی کے بعد والدین کا ہی مرہون منت ہے ۔والدین کے ساتھ اچھا سلوک دونوں جہانوں کی سہادت ہے اللہ تعالی کے بعد انسان پر سب سے زیادہ حق ماں باپ کا ہی ہے ماں باپ کے حق کی اہمیت اور عظمت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ قرآن مجید میں ماں باپ کے حقوق کو اللہ تعالی کے حقوق کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اور اللہ تعالی کی شکرگزاری کے ساتھ ساتھ ماں باپ کی شکر گزاری کی تاکید کی گئی ہے ۔
والدہ کی خدمت کرنے والے بچے کا انعام۔
Posted on at