ہزار روپے میں بیچے اور اس پر کوئی ایسا نشان لگائے
جسے دوسروں کے سامنے لہرا کر بتا سکے کہ اس کے یہ نشان والی قمیض دس ہزار روپے میں لے کر پہنی ہے۔ جو تم غریب نہیں پہن سکتے۔ نمود و نمائش ان کا اوڑھنا بچھونا بن جاتا ہے۔
وہ ایسے لباس زیب تن کرتے ہیں کہ باقی غریب ان کو رشک کی نگاہوں سے دیکھیں اور خود کو کم تر محسوس کرنے لگیں ۔ یہ وڈیرے لٹیرے نو دولتئے آپس میں بیٹھے ہیں تو یہی بات کرتے ہیں کہ کیا زمانہ آگیا ہے کہ حمیداں کا بیٹا اور استاد فجو کی بیٹی بھی اچھے اچھے کپڑے پہن کر کالج یا یونیورسٹی جارہے ہیں۔ اللہ کی شان یہ زمانہ ہم نے بھی دیکھنا تھا۔
حمیداں اور فجو کے بیٹے بیٹیاں تو وڈیروں لٹیروں اور نو دولتیوں کے جوتے پالش کرنے کے لیے پیدا ہوئے ہیں یہ کیوں سراٹھا کر اور ہاتھوں میں کتابیں اٹھا کر یونیورسٹیوں اور کالجوں میں جائیں۔ سفید کوٹ پہنے نظر آئیں۔ پھر حمیداں اور فجو کے بیٹے بہت اچھے نمبر لے کر کامیابی کے پھریرے لہراتے ہیں تو مسٹر رشوت خور اور اس کی سبک خرام مسسز تسبیح والا
حسد و جلاپے سے لال پیلی ہو جاتی ہے ۔ پھر یہ لوگ نمبر اور ڈگریاں خریدنے نکل کھڑے ہوتے ہیں۔
حمیداں اور فجو کے بچے جب پھر بھی خداداد صلاحیتوں پر بل بوتے پر آگے بڑھنے اور بھوکے رہ اور پیدل چل کر اعلیٰ تعلیم اور منصب حاصل کرتے ہیں ۔ تو ان کے لیے موجود مواقع کو ختم کر نے کے لیے نئی نئی پالیسیان بنائی جاتی ہیں ۔ اپنے نالائق بے ہنر اور صرف
ٹیڑھے منہ سے ٹیری انگریزی بولنے والے بچوں کے لیے مہنگے قیمتی