وہ تمام معاشرے جہاں مختلف مذہبی، لسانی اور اتھنک فرقے اور جماعتیں ہوتی ہیں، وہاں ان کے درمیان باہمی تصادم اور اشتراک دونوں سلسلے جاری رہتے ہیں۔ چونکہ تصادم میں ٹکراؤ اور سنسنی خیز ہوتی ہے، اس لیے لوگوں کو اس میں زیادہ دلچسپی ہو جاتی ہے۔ جب کہ اس کے مقابلے میں اشتراک کا عمل آہستہ روی اور خاموشی سے چلتا ہے، اس لیے اس کے نتائج کا اندازہ دیر سے ہوتا ہے۔ تصادم وقتی، حادثاتی اور اچانک ہوتا ہے اور تیزی سے ختم بھی ہو جاتا ہے لیکن اس زخم بعض اوقات اس قدر گہرے ہوتے ہیں کہ نسل درنسل گہرے ہوتے ہیں۔ اشتراک ایک دیر پا سلسلہ ہوتا ہے جو تصادم اور ٹکراؤ کے زخموں کو مندمل کرتا ہے اور غلط فہمیوں کو دور کر کے لوگوں کو قریب لاتا ہے۔
ہندوستان میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان تصادم اور اشتراک کا یہ عمل مسلسل جاری رہا ہے۔ جہاں ان میں خوں ریز جنگیں اور فسادات ہوئے وہاں ایک دوسرے سے سماجی و ثقافتی طور پر سیکھا بھی۔ مسلمان معاشرہ کسی حد تک ثقافتی و سماجی طور پر ہندوؤں سے اثرانداز ہوا۔۔۔۔۔ اس کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ عہد سلاطین و مغلیہ سے لے کر بعد میں قائم ہونے والی صوبائی سلطنتوں میں ہندو انتظامیہ کے ایک اہم عہدوں پر فائض تھے۔
خاص طور سے وہ طبقہ جس نے فارسی میں اس قدر مہارت حاصل کر لی تھی کہ ان کی لکھی ہوئی قواعد اور لغت کی اہمیت کو ایرانی بھی تسلیم کرنے پر مجبور ہو گئے۔ اودھ، حیدرآباد، دکن اور میسور کی ریاستوں میں اعلٰی عہدے دار ہندو تھے کہ جو افداری اور مہارت سے ان سلطنتوں کے انتظامات کو سنبھالےہوئے تھے۔ انیسویں صدی میں راجہ رام موہن رائے، برہمو سماج کے بانی، عربی و فارسی کے عالم تھے۔ ان کی فضیلت و علمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے بہادر شاہ ظفر نے انہیں اپنا وکیل بنا کر ولایت بھیجا تھا کہ وہاں ملکہ وکٹوریہ اور پارلیمنٹ کے سامنے ان کی وکالت کریں۔
اس مشترکہ کلچر کی سب سے اہم بنیاد فارسی زبان تھی۔ سعدی، حافظ، فردوس، روکی اور جامی کو پڑھنے والے دنیا کے بارے میں اور انسانی تعلقات کے بارے میں جو نقطہ نظر تشکیل دیتے تھے، اس میں نفرت و عناد نہیں بلکہ انسانی دوسی و مروت تھی۔ فارسی شاعری میں جو رواداری ہے وہ ذہن کو وسیع اور رویوں و رجحانات کو محبت پر استوار کرتی ہے۔ اس میں ملائیت، تنگ نظری اور جنوبیت کی مذمت ہے۔ یہ وحدت والوجود کے فلسفہ کی مدد سے کافر و مومن کے فرق کو مٹاتی ہے۔ تسلسل کی یہ روایات اس وقت ٹوٹیں کہ جب یہاں نو آبادیاتی حکومت آئی، اس نے روایتی اداروں کی جگہ آہستہ آہستہ ادارے قائم کرنا شروع کر دیئے۔ جب انگریزی کی جگہ فارسی نے لی تو زبان کا وہ رشتہ ٹوٹ گیا کہ جو مشترک کلچر کی بنیاد تھا۔ اس کے ساتھ ہی تعلیمی نصاب بدلا تو دنیا کے بارے میں نقطہ نظر بھی بدل گیا۔ اب علم کا مقصد ملازمت کا حصول رہ گیا۔