"نقل کا رجحان اور اس کا تدراک"

Posted on at


معاملات میں اعتدالو توازن کسی بھی سوسائٹی کا حسن ہوا کرتا ہے اور کسی بھی معاملے میں عدم توازن معاشرےکے بگاڑ کا سبب بن جاتا ہے- طلباء کی زندگی میں نقل کا بڑھتا ہوا رجہان نہ صرف ان کی شخصیت کو تباہ کر دیتا ہے بلکے اس سے معاشرہ عدل و انصاف سے محروم ہو جاتا ہے - نقل نہ صرف مذہبی نقطہ نظر سے مذموم ہے بلکے نفسیاتی اور معاشرتی سطح پر بھی بگاڑ کا سبب بنتی ہے -

 

 

 

نقل خیانت ، دجل و فریب اور دھوکہ دہی ہونے کے ساتھ ساتھ کسب حلال کے بھی خلاف عمل ہے- سب سے پہلے نقل خیانت کے زمرے میں اتی ہے جسکی شریعت اسلام میں سخت،مذمت کی گئی ہے-

ارشاد باری تعالیَ ہے

"یا یھا الذین امنو الا تخو نو االلہ ولرسولو تخو نو ا اما نتکم وانتم تعلمون"

ترجمہ: "اے مومنو ! نہ تو الله اور رسول کی امانتوں میں خیانت کرو اور نہ اپنی امانتوں میں خیانت کرو اور تم جانتے ہو دیانتداری کے بارے میں ارشاد باری ہے -

ان اللہ یا مر کم ان تو دو الا مانت الی اھلھا(النساء)

ترجمہ: بے شک اللہ تم کو حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں ان کے سپرد کرو"-

 

 

 

حضورٌ نے فرمایا کہ "جس میں دیانت نہیں اس میں ایمان نہیں"

قیامت کی نشانیاں بیان کرتے ہوۓ فرمایا کہ سب سے پہلے اس امت سے امانت کا جوہر جاتا رہے گا-حضرت خدیجہ فرماتی ہیں کہ آقا کریم نے فرمایا کہ "امانت اتنی کم ہو جاۓ گی یہاں تک کے لوگ مثال دے کر کہے گے کہ فلاں  قبیلے میں ایک امانت دار شخص رہتا ہے"

حضرت شعیب کی قوم پر نزول ِ عذاب کی وجہ کم تولنا اور امانتوں میں خیانت کرنا تھا-

حضورٌ نے فرمایا کہ "المجالس با لا مانت"

یہ حدیث اس ضمن میں بڑا جامع مہفوم رکھتی ہے- جماعت محفل،کلاس اور کمرہ امتحان بھی ایک ترہ کی مجلس ہیں جن میں ہر صورت خیانت سے بچتے ہوۓ امانتداری اور خیانت داری کے ساتھ اپنے فرائض سر انجام دینے چاہیے- محفل میں اگر کسی کا راز اپنے پاس محدود نہ رکھنا بھی خیانت ہے جو کہ نقل کے زریعے دبا کی صورت اختیار کر جاتی ہے- نقل خیانت کے ساتھ ساتھ دھوکہ فریب کے زمرے میں بھی اتی ہے - ایک مسلمان کی یہ شان نہیں کہ وہ  الله اور اس کے رسول کو دھوکہ دے-

ترجمہ: وہ الله اور اہل ایمان کو دھوکہ دیتے ہیں(حالانکہ) وہ اپنے آپکو دھوکہ دیتے ہیں اور وہ شعور نہیں رکھتے"

فرمایا گیا ہے"من غش غلیس منا"

 ترجمہ "جس نے دھوکہ دیا وہ ہم میں سے نہیں"

یعنی دھوکے باز انسان کا حضورٌ اور مسلمون کے طبقے سے کوئی تعلق نہیں - نقل کرنا دراصل اپنے مغزز اساتدزہ، بلکے خود رب ذلجلال کو دھوکہ دینے والی بات ہے - ہم روزے کی حالت میں بھی چھپ کر کھانا نہیں کھاتے کہ خدا دیکھ رہا ہے تو کیا وہ خدا ہمیں نقل کرتے وقت نہیں دیکھ سکتا جب ہم کوئی گناہ کرتے ہیں تب بھی تو وہ اسی طاقت اور یکسوئی کے ساتھ دیکھ رہا ہوتا ہے جس قوت کے ساتھ وہ ہمیں روزے میں کھانا کھاتے دیکھتا ہے -

 

 

 

 

نقل کرنا شرم و حیا کے بھی منافی ہے اس ضمن میں آقا نے فرمایا کہ "جس میں حیا نہیں وہ جو چاہے کرے"

اس حدیث میں یہ کہا گیا ہے کہ اگر ایک مسلمان کی زندگی سے حیا کی خوبی خارج ہو گئی تو پھر وہ چاہے کرے پھر وہ آزاد ہے اس پے کوئی گلہ نہیں کیوں کہ گناہوں کی دلدل سے حیا کی نعمت نکلتی تھی جب وہ ہی خارج ہو گئی تو پھر اس سے خیر کی امید لگا لینا نادانی ہے

اس طرح اور بھی حدیث میں نقل یا خیانت کرنے سے منع کیا گیا ہے اس لئے ہمیں چاہیے قرآن اور حدیث کو دیکھتے ہوۓ ان چیزوں سے بچنا چاہیے -   



About the author

hamnakhan

Hamna khan from abbottabad

Subscribe 0
160