پاکستان میں سکولوں کی حالت خاص طور سے پرائمری سکولوں کی حالت انتہائی خستہ اور ناقابل بیان ہے. طلبہ کے بیٹھنے کے لئے مناسب فرنیچر تک میسر نہیں اور اسی ماحول میں وہ تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں مگر ہماری حکومت ان سب بنیادی مسائل پر توجہ دینے کی بجاۓ انگریزی زبان کی ترویج کا راگ الاپنے میں مصروف ہے حالانکہ ہونا یہ چاہیے تھا کہ پہلے یہ سب مسلے دور کیے جاتے ،سکولوں کی حالت بہتر بنائی جاتی ، مناسب مقدار میں اساتذہ کو انگریزی زبان کی تدریس کی تعلیم دی جاتی اور اس کے بعد یہ منصوبہ شروع کیا جاتا مگر ہماری حکومت صرف انگریزی زبان کی تعلیم کو ہی ترقی کا راستہ سمجھ بیٹھی ہے اور اس منصوبے کی مد میں اربوں روپے صرف کر دئے گیے ہیں اور حاصل کچھ نہیں ہوا سواۓ معصوم طلبہ کے ذہن کو منتشر کرنے کے . یہ منصوبہ نہ صرف روپے کے ضائع ہونے کا سبب بنتا ہے بلکہ قومی ترقی کی راہ میں بھی رکاوٹ ہے . اس بات میں کوئی شک نہیں کے دیگر ترقی یافتہ ملکوں میں اپنی مقامی زبان کے علاوہ دوسری غیر ملکی زبانیں بھی پڑھائی اور سکھائی جاتی ہیں مگر بنیادی حیثیت انکی اپنی قومی زبان کو ہی حاصل رہتی ہے . تعلیم کے ماہرین اور تحقیق دان بھی اس بات پر متفقہ ہیں کہ بچے کی ذہنی نشونما میں اسکی اپنی مادری زبان کا کردار سب سے زیادہ اہم ہوتا ہے پاکستانی سائنس دان ڈاکٹر قدیر نے بھی اس بات کا اظہار کیا ہے کہ ان کے ذہن کو قومی زبان کی بدولت ہی جلا حاصل ہوا تھا
یہ بات کسی المیے سے کم نہیں ہے کہ پاکستان میں آج کل اردو زبان کے اساتذہ کی تعداد روز بروز کم ہوتی جا رہی ہے . جب ملک میں استاد ہی میسر نہیں ہوگا تو طلبہ کیا خاک سیکھیں گے ؟ اب اس بات کی ضرورت ہے کہ پاکستان میں اردو زبان تحریک کا آغاز کیا جاۓ تاکہ ایک روشن مستقبل کی طرف پیش قدمی کو ممکن بنایا جا سکے . مملکت پاکستان کا قیام اسلام کے مساوات کے تصور کی بنیاد پر وجود میں آیا تھا مگر لمحہ فکریہ یہ ہے کہ اب یہاں ایک طبقاتی نظام تعلیم بہت تیزی سے اپنی جڑیں پھیلا رہا ہے . حکومت کے لاکھوں کی تعداد میں زبوں حالی کا شکار تعلیمی ادارے ایک سائیڈ پر ہیں جبکہ دوسری طرف ہزاروں کی تعداد میں اسلامی اور دینی مدرسے موجود ہیں اور ان مدرسوں میں لاکھوں طلبہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں جبکہ تیسری طرف بہت زیادہ مہنگی پرائیویٹ درس گاہیں ہیں جن کی تعداد میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے اور ان درس گاہوں میں صرف انگریزی نظام تعلیم کا راج ہے . مگر پاکستان کے قیام کے وقت ایسا نہیں تھا اس وقت ہر طبقہ چاہے وہ امیر ہو یا غریب ان سب کے لئے یکساں نظام تعلیم رائج تھا اور صرف سرکاری سکول اور درس گاہیں ہی حصول علم کا ذریعہ تھیں اور انہی درس گاہوں نے بڑے عظیم لوگ تیار کئے . ان اداروں میں گورنمنٹ کالج لاہور اور پنجاب یونیورسٹی لاہور جیسے ادارے شامل تھے جہاں پورے ملک سے طلبہ حصول علم کے لئے آتے اور تعلیم کے ساتھ ساتھ سماجی رشتوں کی بہتری کا ذریعہ بھی بنتے
قیام پاکستان سے قبل انگریز حکمرانوں نے اپنے وفا دار اور امیر طبقہ کے لئے ایچی سن کالج اور لارنس کالج جسے ادارے قائم کئے تھے جن میں صرف امیروں کے بچے ہی تعلیم حاصل کر پاتے تھے . جبکہ دوسری طرف متوسط طبقے کے لئے علی گڑھ جیسی شہرہ آفاق یونیورسٹی موجود تھی اور تحریک پاکستان کے بیشتر رہنما وہیں کے تعلیم یافتہ تھے ١٩٧٤ میں ذولفقار علی بھٹو کی حکومت کے دوران سرکاری تعلیمی اداروں کی تباہی کا سلسلہ شروع ہوا اور اب تو ایسا محسوس ہوتا ہے کے حکومت تعلیم کی ذمہ داروں سے پوری طرح منہ موڑ چکی ہے . تعلیم کا تقدس پوری طرح پامال ہو چکا ہے اور تعلیم کو اب کاروبار کا ذریعہ بنا لیا گیا ہے
********************************************
مزید دلچسپ اور معلوماتی بلاگز پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں
بلاگ رائیٹر