ٹرائکا یا تکون

Posted on at


 ٹرائکا یا تکون 


وطن عزیز پاکستان کو آزادی 1947 کو ملی ، ملک کے پہلے نامزد گورنر جنرل قائداعظم ؒ کی وفات 1948 کو ہوئی اور 1951 کو ملک کے پہلے وزیراعظم  لیاقت علی خان کو گولی مار کر شہید کر دیا گیا۔  اس کے بعد ملک کی بھاگ دوڑ کی نکیل تکونی شکل کے نظامت حکومت کو منتقل ہو گئی۔  جسے ٹرائکا کہا جا سکتا ہے۔  یہ تکونی شکل اصل میں ظرز حکمرانی کا ایک سائکل ہے جو جاگیردار ، سرمایہ کار اور اعلیٰ حکومتی عہدہدران پر مشتمل ہے جو ملک پر اپنی اپنی باری پر حکومت کر رہے ہیں اور  حکومت بھی اپنی مرضی ، مفاد و منشاء کے مطابق چلا رہے ہیں ۔ بڑی مثال تو نظام تعلیم کو فرنگی نظام تعلیم میں بدلنا ہے حالانکہ 99 فیصد عوام کی زبان اُردو اور علاقائی زبانیں تھی اور عوامی رائے اور عوامی احترام خواہش تو یہ تھی پورے ملک میں علاقائی زبانوں میں نظام تعلیم کو رائج کیا جائے جو علاقائی تمدن و ثقافت و رواجوں و ادب  کو بھی اجاگر کرتی ہیں۔  لیکن جبراً اس تکونی طرز حکومت نے اپنا نظام ٹھوس دیا۔



دوسرا بڑا کارنامہ اس ٹرائیکا نما حکومت کا اُس نظام کو برقرار رکھنا تھا جو اُن کے آقاؤں نے گزشتہ ایک صدی سے برصغیر پر جما رکھا تھا۔  یعنی عوام کو غلامیت میں رکھ کر ذہنی ٹھیراؤ و جمود کا شکار رکھنا۔  نظام تعلیم کو اپنے حق میں کرنے کا مطلب معاشرتی ترقی خون  کرنا ہے اور حقیتاً معاشی ترقی کا انحصار بھی معاشرتی ترقی پر ہے۔  گویا ہماری معشیت کی زوال پزیری کی بیناد 1951 کو پڑ گئی تھی جب سمراجی قوتیں کے زیر نگین ٹرائیکا نے حکومتی پیسے کو ڈی ویلیو کرنا شروع کر دیا۔  اور ملکی معشیت کو دیمک لگ گئی اور ملکی نظام کو چلانے اور عوامی معاشی اور سماجی  ترقی کے لئے بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے بھاری قرضے لینے کی گیم شروع ہو گئی۔  یہ ساری گیم جاگیرداری ، سرمایہ داری اور افسران بالا کی ملی بھگت کا ایک شاطر کھیل تھا جو عوام کی ترقی کے نام پر ان اداروں سے بھاری رقوم کا حصول تھا اور ابھی بھی اس کا تسلسل جاری ہے۔



  تکونی حکومت کا معاشی جرم جس کی سزا بالوسطہ آخر کار عوام کو ہی مہنگائی کی صورت میں چھیلنا ہو گا۔  ملکی و غیر ملکی قرضوں کا بوجھ متواتر بڑھ رہا ہے اور یہ بے رحم ڈرائراکولہ عوام کا خون چوس چوس کر بین الاقوامی بینکوں جن میں سوئس بینک ، انگلستان کے بینک،  امریکی بینک قابل ذکر ہیں کو مالامال کر رہے ہیں۔  مصدقہ ذرائع بتاتے ہیں صرف سوئس بینکوں میں پاکستانی جاگیرداروں ، سرمایہ کاروں اور افسران کی رقوم 200 ارب ڈالر سے زیادہ ہیں۔



 


 اسمبلیوں اور حکومتی ایوانوں میں بیھٹے ان جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے پاس عوام کی ترقی کے لئے کوئی بھی باضابطہ اور ٹھوس ایجنڈہ سرے سے ہی موجود نہیں جس کو بنیاد بنا کر کہا جا سکے کہ بدترین حالات کے طوفان میں پھنسی ملک کی کشتی ساحل تک پہنچ پائے گی یا نہیں۔  عوام کے لئے آئین میں سب کچھ ہونے کے باوجود کوئی ثمر نہیں۔  ملک بھر کے 18 کروڑ عوام کے لئے چند گنے چنے قاضی صاحبان جو سپریم کورٹ و ہائی کوٹ میں مسندوں پر فائز ہیں معاشی محرومیوں کے شکار عوام کا کچھ نہیں کر سکتیں۔  ہم نے 1947 میں فرنگی سمراج سے آزادی حاصل کی لیکن ابھی تک ہم نے معاشی آزادی حاصل نہیں کی اور آج قوم مہنگائی و توانائی کے بحران کے سبب بے روزگاری و غربت کے مسائل کو گلے لگا کے بیھٹی ہے۔  ہم تو یہ مصائب تو برداشت کر رہے ہیں لیکن کیا ہم اپنی آنے والی نسلوں کو ان بے رحم لوگوں کے چنگل سے  اپنی قومی معشیت کو آزاد کر کے انہیں محفوظ معاشی مستقبل دیں سکیں گے؟



160