لذت تیرے کلام میں آئی کہاں سے یہ
پوچھیں گے یہ حالئی جادو بیاں سے ہم
مولانا حالی کی شاعری لذت اور اثر سے بھری ہوئی ہے۔ وہ 1837ء کو پانی پت میں پیدا ہوئے۔ ان کی ابتدائی شاعری پر غالب اور شیفتہ کا اثر نمایاں طور پر دکھائی دیتا ہے۔ یہ ان کی شاعری کا پہلا دور تھا۔ ان کی شاعری کا دوسرا دور اس وقت شروع ہوا جب ان کی ملاقات سرسید سے ہوئی۔ اور وہ ان کی تحریک سے رضا کارانہ طور پر وابستہ ہوگئے۔ اسی مقام پر انھوں نے غزل کے نادیدہ محبوب کو چھوڑ کر پوری قوم کو اپنا محبوب بنا لیا۔ اور انھیں مسلمانوں کی بدحالی سے شدت سے گھیر لیا۔
اب سنو حالی کے نوحے عمر بھر
ہو چکا ہنگامئہ مدح و غزل
ناکام جنگ آزادی 1857ء میں جب دہلی کو فلک نے لوٹ کر ویران کر دیا ۔ تو اس اجڑے دیار کے رہنے والے شاعروں نے لکھنو اور لاہور کا رخ کیا۔ حالی لاہور آئے۔ اور یہاں آکر محمد حسین آزاد اور پیارے لال آشوب کے ساتھ مل کر کرنل ہالرائیڈ کے کہنے پر جدید شاعری کا مشاعرہ برپا کیا۔ اس تحریک کو بعد میں انجمن پنجاب کا نام دیا گیا۔ انجمن پنجاب کے تحت شاعروں نے گل و بلبل کے روایتی قصے اور ہجر و وصال کی داستانیں چھوڑ کر مناظر فطرت اور ملک و قوم کے مجموعی دکھ درد پر مسلسل نظمیں لکھیں۔ مولانا حالی نے شاعری کی زبان کو اتنا سادہ بنا دیا کہ وہ تقریبا نثر سے مل گئی۔ مولانا حالی کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ انھون نے شاعری کو مشرف بہ اسلام کیا۔ اور اردو ادب میں شاعری کی بنیاد رکھی۔
حالی نے نظم گوئی قوم کی بیداری کے لیے شروع کی تھی ۔ کیونکہ انھیں اس بات کا یقین ہو گیا تھا کہ نثر کے مقابلے میں نظم کا اثر ذیادہ ہے۔ اور یہ کہ قوم کی تعمیر و ترقی میں شاعری کا بنیادی حصہ ہے۔ مولانا حالی سے پہلے اگر چہ نظیر نے مختلف موضوعات پر نظمیں لکھیں تھیں۔ لیکن ان کے سامنے کوئی واضع مقصد نہ تھا۔ لیکن مولانا حالی کی نظم گاری کا خاص مقصد تباہ حال مسلمان قوم میں بیداری کی لہر دوڑانا تھا۔ تاکہ مسلمان دوبارہ طاقت حاصل کر کے دنیا کے حکمران بن جائیں۔ ان کی شاعری اردو ادب میں ایک تحریک اور رجحان کی حیثیت رکھتی ہے۔
حالی نے قوم کو اپنے شاندار ماضی کی جھلکیاں دکھا کر بیدار کرنے کی کوشش کی۔ انھوں نے قوم کا دکھڑا اس طرح رویا ہے:
ہماری ہر ایک بات یہ سفلہ پن ہے
کمینوں سے بدتر ہمارا چلن ہے
لگا نام آبا کو ہم نے گہن ہے
ہمارا قدم تنگ اہل وطن ہے
بزرگوں کی توقیر کھوئی ہے ہم نے
عرب کی شرافت ڈبوئی ہے ہم نے
مولانا حالی کے زمانے میں مغربی تعلیم کے اثر سے نئے نئے مسائل پیدا ہوئے۔ ان کا دور انقلاب اور کشمکش کا دور تھا۔ انہوں نے ان تمام مسائل کی اہمیت کو محسو س کیا اور اپنی شاعری میں انھیں بیاں کرنا ضروری سمجھا۔ حالی سے پہلے کسی شاعر میں اتنی ہمت نہ ہوئی تھی کہ وہ نظم میں ایسے مسائل پر روشنی ڈالے جس سے دوسرے متاثر ہوسکیں۔ حالی نے اس کام کا بیڑا اٹھایا اور شاعری کے تمام اصناف کو اس مقصد کے لیے استعمال کیا۔ حالی نظیر کی طرح سچائی، واقعہ نگاری اور حقیقت پسندی کے شاعر تھے۔ لیکن ان کی زبان نظیر کی طرح سوقیانہ اور بازاری نہیں بلکہ پاکیزہ ہے۔ وہ کبھی گھٹیہ اور معمولی درجے کا لفظ استمال نہیں کرتے۔ وہ راست گو تھے۔
ہم نہ کہتے تھے کہ حالی چپ رہو
راست گوئی میں ہے رسوائی بہت