سید ضمیر حسین شاہ جعفری یکم جنوری 1914ء کو جہلم میں پیدا ہوئے۔ اور 1999ء میں وفات پائی۔
ضمیر اپنے معاشرے کے گہرے اور عمیق مطالعےکے سبب معاشرتی کمزوریوں اور حماقتوں کو نشانہ تضحیک بنانے کے فن سے اچھی طرح آگاہ ہیں۔ ان کے لہجے میں پو ٹھوہاری ثقافت اور زبان عسکری تہذیب روایت کے عناصر جا بجا بھرے نظر آتے ہیں۔ یہ لمحہ مایوسی کی بجائے امید پرستی، بزدلی کے بجائے جرات و استقامت ، حزن کی جبائے نشاط و حیات اور گریز کے بجائے حیات خندہ کے مناظر پیش کرتا ہے۔
انکے مزاح میں ایک خاص حصہ لطائف کا بھی ہے۔ پطرس بخاری نثر میں آسان الفاظ سے مزاح پیدا کرتے ہیں۔ جبکہ سید جمیر جعفری شاعری میں آسان الفاظ سے مزاح پیدا کرنے کا ہر جانتے ہیں۔ سید ضمیر جعفری کا فن طلسمی کیفیت سے عبارت ہے۔ اس میں حیرت و استعجاب کا وہ لطف اور بے نام احساس کار فرما ہے جو صبع کے وقت کسی نچے کے دل میں اچانک سورج کو جگمگاتا نگاہوں کےسامنے آموجود ہونے پر پیدا ہوتا ہے۔
سید ضمیر جعفری نے علامہ اقبال اور دوسرے معروف و مشہور شعراء کی زمینوں میں خوبصورت مزاحیہ شعر کہے ہیں مثال کے طور پر نظم " مہمان کا سامان" اقبال کی مشہور غزل " نہ تو زمیں کے لیے نہ آسماں کے لیے " کی زمین میں کہی گئی ہے۔ اس نظم کا مزاح اقبال کے پس منظر میں اور بھی چمکتا ہوا نظر آتا ہے۔ اقبال کے موضوع کی بلندی اور ان کی سنجیدہ اور متین بیان جعفری صاحب کی نظم سے ٹکرا کر ایک عجیب تضاد کی کیفیت پیدا کرتا ہے۔ نظم " مہمان کا سامان" میں مہمان کے صندوق کی طرف اشارہ کر کے حیرت سے کہتا ہے:-؎
جناب والا یہ سات منزلہ صندوق
کسی مکاں کے لیے ہے یا لامکاں کے لیے
جناب خود ہی بتائیں کہ ہم کہاں رکھیں
نہ یہ زمیں کے لیے ہے نہ آسماں کے لیے
ایک اور نظم " عید ملن " میں اقبال کے اشعار اور اس کے پیکروں کی پرچھائیاں پس منظر میں لرزتی ہوئی صاف محسوس ہوتی ہیں۔ اور اسی طرح مزاح کے رنگ کو گہرا کر دیتی ہیں۔
ہے میسر آج و شرب و طرب ، نان عجم
اڑ کے پروانے پہ گرائے طائر بام حرم
جعفری صاحب کی چند ایسی نظموں میں سے جو معجزے سے کم نہیں ہے ایک نظم " کل شب جہاں میں تھا" ہے۔ اس میں ضمیر جعفری نے اپنا مطلب واضع کرنے کے لیے نئے نئے قافیے کھڑے کیے ہیں:-؎
پے درپے قوالیوں کی پالیاں ہونے لگیں
دن نکمے اور راتیں کالیاں ہونے لگیں
سید ضمیر جعفعری نے جو لکھا حسب حال لکھا ۔ اس لیے ان کی شاعری مذاحیہ ادب میں ایک ناقابل فراموش اضافہ ہے۔ ہمارے معاشرے کی برائیوں اور عوامی محرومیوں کا تذکرہ انہوں نے جس دلفریب انداز میں کیا ہے وہ یقینی طور پر لاجواب ہے۔ ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کے مطلعق انھوں نے اپنے قطعہ " اکیسویں صدی" میں یوں فرمایا:-؎
اس سال کے بجٹ میں کیا کیا نہیں ہے لیکن
کیفیت ایک خاص ڈرامائی آ گئی
اکیسویں صدی کی دانائی آتے آتے
بائیسویں صدی کی مہنگائی آگئی