شطرنج کی بساط
واقعہ نو گیارہ یا 9/11جو امریکہ میں 2001 میں رونما ہوا ، اُس وقت کی اکلوتی سپر پاور امریکہ نے ہر حال اور کسی بھی صورت اس واقع کے پیچھے متحرک مجرموں کو بے نقاب کر کے سنگین سزائیں دینے کا تہیہ کر دیا۔ اس مقصد کے لئے ساری دنیا کی عسکری اور معاشی طاقتوں کو ساتھ ملایا گیا۔ جس میں نیٹو ، جو یورپین ممالک کی مشترکہ عسکری قوت ہے ، آسٹریلیا کی فوج ، چاپان ، بھارت کی افواج نے ایک قلیل دہشت گرد عسکری گروپ کو چاروں طرف سے گھیر کر اُس کے وجود کو دنیا سے ختم کیا۔ وار آن ٹرر کا نعرہ بلند کیا گیا اور اس گروپ میں پاکستان کو زبردستی شامل کیا گیا کیونکہ ملک کی اکثریتی عوام اس جنگ میں پاکستان کی شمولیت نہیں چاہتی تھی لیکن کیونکہ ملک میں اُس وقت غیر جمہوری حکومت تھی جو عوامی احساسات و خواہشات کے احساس سے مبرا تھی۔ پاکستان کو اس جنگ میں بڑا جانی و مالی نقصان اُٹھانا پڑا۔ امریکہ اور اُس کے اتحادی ممالک کی فوجی یلغار نے اس خطے میں لاکھوں بے گناہ لوگوں کا خوں بہایا۔ کروڑوں لوگوں کو بے گھر کیا۔
اگر زمینی حقائق پر نظر ڈالی جائے پاکستان اُس وقت بھی شدید اقتصادی صورت حال دوچار تھا افغانستان پر امریکیوں اور اتحادی فوج کے قبضے کے بعد افغانی دہشت گردوں نے پاکستان کی شمال مغربی سرحدی علاقوں جو فاٹا کے علاقے ہیں پناہ لی اور مقامی لوگوں کو زبردستی اپنے ساتھ ملا کر پاکستانی قوانین کی حکومتی رٹ کو چلنج کیا ۔ اُس وقت پاکستان کی اعلٰیٰ سیاسی و عسکری قوتیں کی متفقہ رائے سے فوجی آپریشن کا فیصلہ کیا گیا اور اس کے علاوہ اور کوئی چارہ بھی نہیں تھا۔ یہ فوجی آپریشن کس قدر ضروری ہو گیا تھا۔ کیونکہ دوسرے طرف بھارت نواز افغانی حکومت ہمارے ازلی دشمن کو ہمارے شمال مغربی سرحدوں کے لئے راستے فراہم کر رہی تھی۔ یہ آپریشن9/11 کے بعد ملک کے قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن ملک کی بقا اور سلامتی کے لئے آغاز تھا۔
دشمن نے اس ضمن میں کوئی مسجد کوئی کلیساء اور کوئی فرقہ نہ ہو جس کو جانی و مالی نقصان نہ دیا ہو۔ بھرے بازاروں میں لوگوں پر اپنے فدائیوں سے خود کش دھماکے کروائے ، جس سے جانی نقصان کے علاوہ کاروبار زندگی مفلوج ہوکر رہ گیا اور قوم کو شدید اقتصادی بحران کا سامنا کرنا پڑا۔ اپنی دہشت و دبدبہ پھیلانے کے لئے زیر حراست رکھے حکومتی اہلکاروں کی قتل عام کی ویڈیو کو نشر کیا گیا ایف ایم ریڈیو کو اپنے مخالف لوگوں کو قتل کی دھمکیاں دینے کے لئے استعمال کیا گیا۔ دوسری طرف سے ازلی دشمن بھارت ملک کی مشرقی سرحدوں پر حملے کر رہا تھا اور ملک کی افواج کو ہر طرف سے جنگی حالت میں مشغول رکھنا چاہتا تھا۔ لیکن باصلاحیت پاک فوج نے ان ساری آزمائشوں پر کامیابی سے قابو پایا۔ دشمن کے مذموم عزائم کو ناکام بنایا۔
دشمن کی ہر چال شرنج کی باساط کی طرح ہے جس طرف بھی نظر دوڑائی جائے ملک کے خلاف ایک شاطر چالاک چال نظر آتی ہے۔ ملک کے امن و امان اور اقتصادی صورت حال کی بگڑئی ہوئی اندرونی حالت کو بڑی حد سیاسی اور عسکری قیادت کی اعلیٰ ظرفی اور بصیرت نے کافی حد تک قابو میں کیا ہے لیکن آنے والا وقت ملک کے لئے بہت نازک ہے ۔ بعض تجزیہ نگاروں اور دانش وروں کے نزدیک 2014 میں امریکی افواج کی افغانستان سے رخصتی علاقے پر دہشت گردی کی گرفت کو دوبارہ مضبوط کر سکتی ہے اور وطن عزیز کے حالات خاص طور پر بلوچستان اور کراچی کے حالات تو بے قابو ہو چکے ہیں۔ ٹارگٹ کلنگ سے ناحق خون کا بہاؤ جاری ہے۔
ہمارے ملک کو اب جمہوریت میں تسلسل اور استحکام چاہیے ، ازلی دشمن نے شطرنج کی باساط ڈال دی ہے اور اُس کی پیشتر چالیں کامیاب ہو رہی ہیں۔ افغانستان میں نئی حکومت اور نئے صدراتی انتخابات سے عبداللہ عبداللہ کی آمد کی نوید سنائی دیتی ہے جو بھارت کے حق میں شطرنج کی باساط میں گھوڑوں کے مہروں کا کردار ادا کرتا آیا ہے ۔ آئے روز پاکستان کے خلاف بیان بازی افغان حکومت کا بھارتی سفارتکاری کے لئے حصہ ہے حق یا ناحق کی تمیز کو بالائے تاک رکھ کر بھارت نواز افغان حکومت پاکستان پر اپنے مفادات کے لئے بیان بازی کا زہر اگل رہی ہے۔ نریندر مودی کی حلف برداری کی تقریب میں جناب مودی نے افغان صدر حامد کرزئی کا اس طرح استقبال کیا جیسے برسوں سے بچھڑے بھائی ملے ہوں بھارتی صدر کی حلف برداری کی تقریب کا ویڈیو فوڑیج قارئین دیکھ سکتے ہیں اور اُس انس و محبت کو ملاحظہ کر سکتے جو کسی دوسرے پڑوسی ملک کے نصیب میں کہاں آیا تھا۔ بھارت ایران کو بھی بلوچستان میں امن عامہ کی حالت کو کشیدہ کر کے پاکستان کے خلاف اکسا رہا ہے کیونکہ درپردہ بلوچ لیبریشن تنظیم کے پیچے بھارت کے خفیہ ادارے راہ کا ہاتھ ہے جس کے مستند ثبوت حکومت پاکستان کے پاس ہیں۔ چین سے نئے تجارتی روابط قائم کر کے بھارت پاکستان اور چین کے درمیان تعلقات میں وسیع خلیج حائل کرنا چاہتا ہے۔
پاکستان کو 2014 میں امریکی اور یورپی عسکری طاقت کے انخلاء کے بعد کی ممکنہ گھمبیر صورت حال کا سامنا کرنے کے لئے ہوم ورک ابھی سے ہی شروع کرنا ہوگا۔ انسداد دہشت گردی جیسے توجہ طلب مسائل کو جلد از جلد ممکن بنانا ہو گا اور سنگین نوعیت کے جرائم ٹارگٹ کلنگ اور شدت پسندی جس میں معصوم لوگوں کا خون ناحق ہے کے خلاف بلالحاظ اور سیاسی تعلقات کو بلائے طاق رکھ کر موئثر کروائی کرنی ہو گی اور جرائم پیشہ لوگوں سے سختی سے نمٹنا ہو گا اور ناراض شہریوں کو اُن کے حقوق اُن کی دیلیز تک پہچانے کا بندوبست کرنا ہو گا اور سب کچھ جمہوریت کے تسلسل سے وابسطہ ہے اور جمہوریت سے ہی ناراض لوگوں کو حکومتی امور کو سنبھالنے کے لئے دعوت دی جاسکتی ہے۔ اس کے علاوہ خارجہ امور کے حوالے سے پاکستان کی پالیساں کمزور ہیں جو پاکستانی کمیونٹی کے ساتھ بیرونی دنیا کا ناروا اور امتیازی سلوک سے ثابت ہوتا ہے یہ تو دنیا کا دستور ہے گھر اندر سے جتنا مضبوط ہو گا اتنا ہی قرب میں اپنا اثر و رسوخ جمائے گا۔ ورنہ شطرنج کی باساط میں ہر چال دُشمن کے حق میں ہے۔