حضرت شفیق بلخیؒ زہد و طاعت میں یگانہ روزگار اور علم و فضل میں ممتاز تھے آپکےبارے مین لوگوں کا کہنا ہے کہ آپ نے ۱۷۰۰ اساتذہ سے تعلیم حاصل کی اور حضرت حاتم اصمؒ جیسے بزرگ آپ ہی کے شاگرد تھے بہت متمول تھے تجارت کرتے تھے
ایک دفعہ ترکستان مال تجارت لے کر گئے ہوئے تھے وہاں دیکھا کہ ایک بت پرست بت خانہ میں بت کے سامنے کھڑا رو رہا ہے تو آپ نے اسکو دیکھ کر فرمایا شرم کر خدائے حی و قیوم کے سامنے سر جھکا تو وہ بت پرست بولا اگر تمھارا خدا ایسا ہی ہے تو کیا وہ تمہارے وطن مین تمھیں روزی نہ دے سکتا تھا یہ سن کر آپ کے دل میں ایک عجیب سی حرکت پیدا ہوئی وطن واپس آئے تو شدید قحط پڑا ہوا تھا
تو کیا دیکھتے ہیں کہ بلخ میں ایک غلام ہے جو سربازار ہنستا ہوا اور اکڑتا ہوا چلا جارہا ہے نہ رہا گیا تو کہنے لگے کہ شہر کے لوگوں پر مصائب گزر رہے ہیں اور تو ہنستا ہو جارہا ہے بولا مجھے قحط کا کیا ڈر ہے جس کا غلام ہوں اس کے پاس بڑی جائیداد ہے کافی غلہ بھرا ہوا ہے وہ مجھے ہر گز بھوکا نہ رہنے دیگا یہ سن کر آپ کے دل کی دنیا ہی بدل گئی اور بارگاہ خاوندی میں عرض کی کہ خداوند یہ غلام اپنے مالک پر کس قدر نازاں ہے تو بھلا میں تجھ جیسے رازق حقیقی کے ہوتے ہوئے کیوں فکر مند ہوں
اسی وقت توبہ کی دنیا کی طرف سے دل سرد ہو گیا اور اللہ تعالی کی عبادت میں مصروف ہوگئے اور ہمیشہ لوگوں سے یہ فرمایا کرتے کہ میں حقیقت میں ایک غلام کا شاگرد ہوں۔