گھر سے باہر نکل اور پھر آفس میں ان گنت مرد میرے آس پاس ہوتے ہیں لیکن میرے نزدیک اس بات کی اہمیت تھی کہ پیار پانے کے لئے پیار کروں ،وہ ریشتہ استوار کروں جو کہ طویل رفاقت پر مبنی ہو جس کے ساتھ میں فخر سے سر اٹھا کر چل سکوں دوسری صورت میں ایسا کون سانکتہ تھا جس کی بنا پر میں یہ قدم اٹھاتی میں نے شادی شدہ لڑکیوں سے سن رکھا ہے پیار کا احساس ازدواجی تعلقات میں سنسناہٹ اور ولولہ پیدا کر دیتا ہے اس کا تجربہ کرنا چاہتی ہوں لیکن کیسے ؟
مجھے اس کے لئے ایک جیون ساتھی کی ضرورت ہے کیونکہ مشرقی معاشرے میں ایسا ہر تجربہ شادی کے بعد ہی ہوتا ہے اور کمزور ارادوں کی مالک جو لڑکیاں یا عورتیں اس سے ہٹ کر قدم اٹھاتی ہیں تو انہیں جن لفظوں میں یاد رکھا جاتا ہے اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ اگر آج وہ ۔۔۔۔۔۔؟ ہوتا تو مجھے یہ کہانی بیان کرنے کی ضرورت نہیں تھی، میری جب اس سے پہلے ملاقات ہوئی تو اس وقت میں 19 برس کی تھی اور ہم دونوں ہی یونیورسٹی سے اکنامکسمیں آنرز کر رہے تھے یہ بتانے میں بھی کوئی عار نہیں ہے کہ کسی خاص کوشش کے بغیر ہم ایک دوسرے سے محبت کرنے لگے تھے ۔
مجھے نہیں یاد کہ مجھے کسی موقعپر مزاحمت کرنی پڑی ہو کیونکہ ہمارے درمیان جسمانی قرب سےمتعلق کوئی بات نہیں ہوتی تھی ۔ ہم ایک ایسے دور میں داخل ہو چکے تھے جب ارادہ موجود افراد معاشرےمیں منفی میلان و رجحان بڑھ رہا تھا مگر خدا کا شکر ہے کہ میرا شمار ایسی لڑکیوں میں ہوتا رہا جو شادی سے قبل کسی قسم کی گڑ بڑیا غلط حرکت سےپرے رہتی تھیں ۔
یہ ٹھیک ہے کہ میں اور وہ ؟ ایک ساتھ کھانا کھاتے تھے ، لنچ تو ہمارا روز کا معمول تھا جب کہ کبھی کھبار ہم میٹنی شو کے لئے بھی چلے جاتے تھے مگر اس سے بڑھ کر کچھ نہیں اس بات کو بھی چھوڑیں کہ ہمارے مابین اس نوعیت کی کوئی گفتگو ہی نہیں ہوتی تھی اور ہم محض ساتھ رہ کر بھی خوش تھے ۔ ممکن ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ میں بھی قیدوبند کے اصولوں میں کسی حد تک نرمی اختیار کر لیتی یا میری سوچ بدل جاتی لیکن میں ابھی اس پہلو پر سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ ایک حادثے میں وہ ؟ اس کی موت ہو گئی ۔