نظیر اکبرآبادی کی شاعری - چوتھا اور آخری حصہ

Posted on at


نظیر اکبرآبادی کی شاعری - حصہ اول پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں


نظیر اکبرآبادی کی شاعری - دوسرا حصہ پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں


نظیر اکبرآبادی کی شاعری - تیسرا حصہ پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں


نظیر اکبرآبادی کی شاعری - چوتھا اور آخری حصہ



مجموئی طور پر نظیر کی شاعری پر نظر ڈالی جائے تو یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ انہوں نے اپنے عہد کے پیش نظر سیاست، معاشرتیات، اور غریب عوام کے مسائل کو موضوع قلم بنایا- انہوں نے اپنے ہم عصروں اور دیگر شعرا کے برعکس نظم کا راستہ اختیار کیا- ان کی شاعری میں زبان کی لطافت بھی ہے، سادگی بھی، شرینی بھی اور مسائل عامہ بھی، ان کے پاس عمقیق فلسفیانہ نظر تو نہ تھی مگر وو زندگی کے مسائل میں اس طرح رچے بسے ہوے ہیں کہ انہیں سب باتیں اپنے معلوم ہیں- مگر شعرا کے تذکروں میں ان کا نام نہ ملنا نا انصافی ہے
اگرچہ دوسرے شعرا نے بھی مقدور بھر عوامی مسائل پر قلم اٹھایا- مگر نظیر کا قلم ان مسائل سے انچ بھر پیچھے نہ ہٹا- نظیر پر ایک بڑا الزام یہ ہے کہ انہوں نے عوامی شاعری کرتے ہوے کچھ زیادہ ہی عوامیت کا مظاہرہ کر دیا ہے- یعنی یہ کہ شاعری تو ارفع خیالات کو منظم طریقے سے پیش کرنے کا نام ہے- شاعری کے لئے جہاں خیالات کا بلند ضروری ہے وہاں حظ بخش الفاظ کی تلاش بے درکار ہے- اور پھر ان کی خوبصورت ترتیب بھی شاعری کا لازمہ ہے لیکن نظیر کی شاعری میں یہ سب کچھ ایک ساتھ نظر نہیں آتا- وہ بات کو کبھی کبھی یوں بیاں کر دیتے ہیں کہ بات سے خوشبو نہیں آتی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ نظیر اکبرآبادی کے مشاہدات، تجربات، اور احساس کا دائرہ جہاں اس قدر وسیح ہے کہ اسے بحر بے کنار قرار دیا جا سکتا ہے- وہاں وہ بات کرنے کے فن اور الفاظ سے بخوبی آگاہ تھے- ہولی،دیوالی،عید، شب برات کا ذکر ہو یا مکافات عمل، موت،توکل کی بات ہو یا روٹی، دال اور کوڑی کی بات ان کے ہاں موضوعات کے مطابق لہجہ بیان کا انداز اور صورتیں بدلتی رہتی ہیں- الفاظ نے بیان کی وقعت کو بڑھانے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے- بیان کے انوکھے،اچھوتے انداز جذبات کی ترجمانی کرتے دکھائی دیتے ہیں- اس کی ایک جھلک کابڑی نامہ میں دیکھئے


یہ اسپ بہت کودا، اب کوڑا مارو زیر کرو
گڑوا ٹوٹا لشکر بھاگا، میان میں تم شمشیر کرو


جب مال اگھٹا کرتے تھے، اب تن کو اپنے ڈھیر کرو
تم صاف لڑائی ہار چکے، اب بھاگنے میں مت دیر کرو


نظیر کے ہاں شاعری کا ایک رنگ مکمل طور پر اخلاقیات کی صورت میں دکھائی دیتا ہے- نظیر زندگی کی حقیقت سے بخوبی اگاہ تھے- انہیں معلوم تھا کہ یہ زندگی محض چار دنوں کا میلہ ہے- اس کے بعد مکمل سناٹا ہے لیکن اس کے باوجود وہ عیش و نشاط کے نغمے الاپتے رہے- نظیر کے ہاں اسی تضاد کو نقادوں نے شخصیت کا تضاد قرار دیا ہے- نظیر کے ہاں دنیاوی عیش و عشرت کے ساتھ ساتھ دنیا سے چلے جانے اور موت کا ذکر بے کثرت سے ہوا ہے - بنیادی طور پر وہ ایک انسان تھے موت کا خوف ان کے دل میں موجود ضرور تھا لکن وہ زندگی کے اصل لطف سے بھی آشنا ہونا چاہتے تھے یا یہ کہا جا سکتا ہے جوں جوں وہ جوانی سے بڑھاپے کی طرف قدم بڑھانے لگے ان کا دل و دماغ سے عیش و نشاط کے ساتھ ساتھ انہوں نے موت کو بھی یاد رکھا، ساتھ ہی ساتھ ہی ساتھ وہ محبت، ہمدردی، اور مساوات کو بھی فراموش نہیں کرتے تاکہ انسان دوستی کے باعث ایک ایسا معاشرہ تشکیل پا سکے جو مثالی ہو - اس معاشرے کا تصور شاید ان کے ذہن میں تھا یہی وجہ ہے کہ انہپوں نے ہر مقام پر دو متضاد عناصر کے ذریعے اصل حقیقت کو واضح کرنے کی کوسش کی ہے- اخلاقی حوالے سے بنجارہ نامہ، جھونپڑا، موت، تسم و رضا، ان کی قابل ذکر نظمیں ہیں- انسانی زندگی کی ناپائیداری، دولت کی ہوس اور موت کے باہم امتزاج سے انہوں نے جہاں انسانی فطرت کو بےنقاب کیا ہے وہیں انسان کو اس کی اصل حقیقت کا آئینہ دکھاتے ہوے تلقین کا در بھی کھول دیا، فرماتے ہیں


ٹک حرص و ہوا کو چھوڑ میں مت دیس بدیس پھرے مارا
قزاق اجل کا لوٹے ہے دن رات بجا کر نقارا
کیا بدھیا، بھینسا، بیل ، شتر، کیا گوئی، پلا ، سربھارا
کیا گہیوں چاول موٹھ مٹر کیا آگ دھواں اور انگارہ


اخلاقی شاعری کے ساتھ ساتھ نظیر کے ہاں عریاں نگاری بھی عروج پر دکھائی دیتی ہے اور انھیں اردو کے بڑے بڑے عریاں نگاروں میں شامل کیا جاتا ہے، ذمہ داریوں سے لاپرواہی، کھلنڈرا مزاج، عاشقانہ پن، صاف گوئی، ذہنی تعیش اور کڑی معاشرتی پابندیوں کے باعث ان کے ہاں ہوس پرستی، عامیانہ پن اور عریانی جھلکتی ہے- وہ برسات جا ذکر رہے ہوں، ہولی کا، دوالی کا یا گلہری کے بچے کا ان کے ہاں یہ عنصر کسی نہ کسی صورت میں دکھائی دیتا ہے- مسلم معاشرے میں اخلاق اور مذہبی پابندیوں کے باعث شاید وہ ذہنی تعیش سے ہمکنار نہ ہو سکتے لیکن ہندو معاشرے اور ہندو تہذیب و ثقافت نے ان کی ذہنی عیش پسندی کو موقع فراہم کیا جس کے نتیجے میں ان کے ہاں ہوس پرستی نے جنم لیا جوکہ آہستہ آہستہ عریاں نگاری میں بدل گئی
غرض یہ کہ نظیر کی شاعری عام انسانی زندگی کے مختلف رنگوں سے عبارت ہے اس میں تعیش کا رنگ بھی ہے اخلاقی پہلو بھی اور ہوس پرستی بھی- نظیر نے شاعری اور زندگی کے درمیان جو رشتہ قائم کیا جس کی مثال اس سے قبل نہیں ملتی- وہ ایک عظیم روایت لے مؤجد ہیں جس کے چلے بغیر ادب کا کینوس وسیع نہیں کیا جا سکتا
ان کی شاعری عوام میں سرایت کر گئی- یہ اعزاز نظیر کے سوا کسی اور شاعر کو نصیب نہ ہو سکا کیونکہ نظیر کے سوا کوئی اور شاعر نہ عوام کے اس قدر قریب ہو سکا اور نہ عوام کی حقیقی ترجمانی کر سکا
باوجود اس کے ان کا ذکر قدم تذکروں میں نہیں ملتا آج ڈھائی سو سال گزر جانے کے باوجود ان کا نام ان کی عظیم روایت کے ساتھ آج بھی زندہ ہے- کیونکہ وہ حقیقی معنوں میں عوام کے ترجمان تھے اور اب ان کی شاعری کے نقوش عوام کے دلوں پر ثبت ہیں



About the author

Maani-Annex

I am an E-gamer , i play Counter Strike Global Offence and many other online and lan games and also can write quality blogs please subscribe me and share my work.

Subscribe 0
160