ماہ رمضان میں مہنگائی
اسلامی جمہوریہ پاکستان، لفظ اسلامی اپنے اندر وسیع معنی رکھتا ہے۔ مطلب جہاں اسلام قرآن اور سنہ کے قوانین کی روشنی میں بہترین عدل و انصاف کے تقاضوں کے مطابق فیصلے ہوں۔ لیکن پاکستان کو جمہوریہ پاکستان تو کہ سکتے ہیں لیکن اسلامی نہیں۔ یہاں پر کلمہ گو انسان بستے ہیں جو کردار و سیرت سے عاری ہیں اور نظام حکومت فرنگی ہے جہاں پر اٹھارویں صدی کے قوانین چل رہے ہیں۔
ملک کے اندر اداروں کا کردار ایک دوسرے کے لئے لازم ملزوم ہے اور یہ ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں۔ پاکستان کے تقریباً تمام اداریں عوامی مسائل اور بحرانوں کو حل کرنے کی صلاحیت سے محروم ہیں۔ اشیاء صرف کے قیمتوں میں کئی دہائیوں سے متاوتر غیر معمولی اضافے نے ملک میں افلاس و غربت کا گراف بلند کر دیا ہے۔ پچاس فیصد سے زائد آبادی غربت کے خط سے نیچے کی زندگی گزار رہی ہے۔ اس ہوشروبا مہنگائی کی روک تھام کے لئے قومی اداروں کا کردار غیر فعال رہا۔ پرائس کنڑول کمیٹیاں بنائی گئی ۔ جو بدعنوان افسران پر مشتمل ہیں۔ گراں فروشی کی روک تھام کے لئے حکومت ، انتظامیہ اور پرائس کنڑول کمیٹیاں ذمہ دار ہیں۔ مہنگائی کا زور پورا سال رہتا ہے لیکن رمضان سے کچھ دن پہلے اوردوران ماہ مقدس میں اشیا خوردو نوش کی قیمتوں میں دوگنا اضافہ کر دیا جاتا ہے۔
ماہ مقدس رمضان امت محمدی ﷺ کی مذہبی رسومات میں آتا ہے اور اسلام کو دوسرا بڑا رکن ہے۔ اس ماہ میں برکات اور رحمتوں کی بارش کی جاتی ہے اور گناہوں کو معاف کیا جاتا ہے۔ ہر نیکی کا بدلہ ستر گنا تک بڑھا دیا جاتا ہے۔ ماہ رمضان کے برکات ، فضیلتوں تقدس و احترام کو مد نظر رکھتے ہوئے مسلمان اپنے روزمرہ کے کاموں کو کم کر کے اپنا بیشتر وقت عبادات میں گزارتے ہیں۔ ان دنوں میں اخراجات کا تخمینہ عام دنوں سے زیادہ ہو جاتا ہے۔ ہر سال ماہ رمضان میں اشیاء خوردونوش کا سستا کرنے اور قمیتوں میں استحکام لانے کے لئے حکومت عوام سے جھوٹے دعویں کرتی آ رہی ہے۔ خصوصی رمضان پیکچز کا اعلان کیا جاتا ہے۔ پرائس کنٹرول کمیٹیوں کو ہائی الاٹ کیا جاتا ہے ان سارے اقدامات کے باوجود ماہ رمضان میں اشیائے خودونوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہوتی ہے۔ کیونکہ کہ ہمارے عدلتیں اس ضمن میں اپنا فعال کردار نہیں ادا کرتیں۔ بدعنوان افسران کی ساری ملی بھگت کے شرمناک کھیل میں جج صاحبان کھبی اپنے اے سی والے کمرے سے باہر آ کر عوام کے غربت و افلاس کے مرجھائے چہرے نہیں دیکھ پاتے۔ ان جج صاحبان نے اپنی ساری زندگی میں کبھی بازاورں کا چکر ہی نہیں لگایا کہ انہیں کیسےاندازہ ہو کہ روزمرہ میں بڑھتی ہوئی ہوش ربا مہنگائی کے ہم لوگ ہی ذمہ دار ہیں اور اللہ کے آگے ہم ہی لوگ جواب دہ ہو گے۔ ان افسران کی ماہ مقدس میں پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑائی میں ہوتا ہے۔ ہمارے عدلتی منصفین نے گراں فروشوں اور پرئس کنٹرول کمیٹیوں کے افسران سے کبھی بازاروں میں اشیائے صرف کی بڑتی ہوتی قیمتوں کے مطالق پوچھ کچھ کی ہوں اور نہ ہی کسی گراں فروش اور ذخیرہ اندوز کو سخت سزا دیے کر دوسرے کے لئے مثال عبرت بنائی ہو اور نہ ہی ان جرائم پیسہ اس کی وجوہات معلوم کی ہوں۔
ساری دنیا میں حکومتیں اور ممالک مذہبی رسومات کے دنوں میں اشیاء صرف کی قیمتوں کو کم کر دیتے ہیں۔ عیسائیوں کی مذہبی رسم کرسمس کو دیکھ لیں ان دنوں میں اشیاء روزمرہ ضرورت کا سستا کر دیا جاتا ہے تا کہ غریب لوگ بھی کرسمس کی خوشیوں میں شامل ہو سکے۔ افسوس کہ ہم پاکستانی لوگ اپنے کو مسلمان کہلواتے ہیں لیکن اپنے مذہب کے لازوال سچے اقوال و رہنما اصولوں کی تقلید نہیں کرتے۔ رمضان میں مہنگائی کرنے میں ذخیرہ اندوز، ٹھیلے والے، دوکاندار اور سرکاری اشیاء کی گرانی روکنے والے افسران سب ہی شریک ہوتے ہیں اور ان پر چیک رکھنے والے خواب خفلت میں سوئے ہوئی عدالتیں اس نہایت سنجیدہ مسلے کو نظر اندر کر دیتی ہیں۔ ویسے بھی اٹھارویں صدی کے قوانین کی پاسداری کرنے والی ملکی عدالتیں جاگیرار و سرمایہ دار کو تحفظ ہی دینے کے لئے بنی ہیں جو مملکت کے قیام کو بنے کئی دہائیاں گزرنے کے باوجود انگریز سامراج کی روحوں کو جلا بخشتی ہیں اور اس طرح لگتا ہے یہ ملک انسانی آبادیوں کا تو ہو سکتا ہے لیکن اسلامی جمہوریہ پاکستان کے مسلمانوں کا نہیں۔
حکومت وقت گراں فروشی کے مسئلے کو سنجیدہ لے اور موئثر اقدامات کرے، زخیرہ اندوزوں کے لئے سخت سزائیں تجویز کریں اور پرائس کنٹرول کمیٹیوں کے اہلکاروں پر دباؤ ڈالنے کے لئے عوامی شکایات سیل تشکیل دیں مارکیٹوں بازاروں اور سبزی منڈیوں کے گشت اور اشیاء کی قیمتوں پر کڑی نظر رکھے مبادہ اس سے پہلے پانی سر سے گز جائے اور عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جائے تو بغاوت کا عنصر غالب رہے گا اور اس میں کوئی دو آرا نہیں کہ دشمن بھی اس موقع کا فائدہ اٹھا سکتا ہے اور ملک پہلے ہی سے خانہ جنگی کی کفیت کا شکار ہے۔