اسکولوں میں نا قص نظام
اج کل کی تیزی سے ہوتی ہوئی ترقی کا انحصار تعلیم پر ہے لیکن ہمارے ملے میں پتا نہیں کیوں تعلیم پر تواجہ نہیں دی جاتی ہمارے حکمران اتے ہیں کچھ سڑکیں اور لائیٹیں وغیرہ ٹیک کرواتے ہیں اس کو ترقی کا نام دیتے ہیں اور چلے جاتے ہیں کوئی حکمران شاہد چاہتا ہی نہیں ہے کہ ہمارا ملک کے لوگ پڑھیں۔
ہمارے ملک صوبہ پنچاب میں تو کچھ تعلیم پر اور تعلیمی اداروں پر تو ترقی دی جاتی ہے لیکن باقی صوبوں میں اس کو نزر انداز کر دیا جاتا ہے جہاں بچے ہوئے کچھ اسکول ہیں ان کی حالت اتنی خراب ہے کہ وہاں پر پڑھنا مشکل ہے۔ اور جہاں اسکول ٹھیک ہیں وہاں پر پڑھانے والا عملہ ٹھیک نہیں ہے۔
پاکستان میں صوبہ پنچاب کے علاوہ باقی تمام صوبوں میں وہی اسکول چل رہے ہیں جو بہت پرانے ہیں جہاں صاف پانی پینے کا انتظام نہیں ہے اور اکثر اسکولوں کی دیواریں اور چت بھی نہیں ہوتی پچے بفیر چت کی اپنی تعلیم مکمل کرتے ہیں۔ ناپرانے اسکولوں کو مرمت کیا جا رہا ہے اور نہ ہی نئے اسکول بنائے جارہے ہیں۔
اس کے علاوہ کچھ اسکولوں میں تو اسا نظام ہے کہ استاد تو اسکول پڑھانے کے لیے بھی نہیں جاتے اور ان کو گھر بیٹھے بیٹھے تنخواہ مل جاتی ہے حکومت ان کے خلاف کوی ایکشن نہیں لیتی اور نہ ہی ان کو کبھی اسکول میں اکر چیک نہیں کرتی۔ اس لیئے ان کو کسی بات کا ڈر بھی نہیں ہے۔
حالا کی استادزہ کو خود چاہیے ان کے اسکول میں جو نظام ٹھیک نا ہو اس کی خبر کریں اج کل تو لوگوں نے پرائیوٹ اسکول بھی بنا لیئے ہیں بس تھوری سی جگہ خریدی ایک دو اچھے استاد رکھے اور اسکول کو رجسڑر کروا لیا اور رجسڑر کرنے والے لوگ بھی کچھ چیک کروائے بغیر ان کو رجسڑر کردیتے ہیں