الله الله کر کے سیکنڈ ائیر پاس کر ہی لی- رزلٹ کا سنتے ہی ہم بے ساختہ گنگنانے پر مجبور ہو گئے- چلے تو کٹ ہی جائے گا سفر آہستہ آہستہ- دل میں سمائی ایڈمیشن لینا ہے تو کیوں نہ پشاور یونیورسٹی میں قسمت آزمائی کریں مگر جب گھر والوں نے آنکھیں دکھائی تو ہم نے دست بستہ عرض کی کہ ہم تو ہزارہ ہی کے رہنے والے ہیں، ہزارہ ہزارہ ہے- دل ہی دل میں جانے ناچار دل پر چٹان رکھ کر ہم نے ہزارہ یونیورسٹی کا رخ کیا- فارم جمع کرواے- دل کو سہارا دینے کے لئے سلطان سکون کا شعر بے ساختہ پڑھا
حسیں فضائیں، حسیں گٹھائیں، حسیں موسم، حسیں نظارے
تمہیں یہ منظر دکھائیں گے ہم اگر تم آے کبھی ہزارے
اگر نہ دیکھے ہوں ایسے منظر تو میری وادی میں آکے دیکھو
سروں پہ پھیلی ہوئی گٹھائیں زمین پہ اترے ہوے ستارے
لسٹ میں نام آنے کے بعد انٹرویو کا مرحلہ ایسا تھا کہ اگر انٹرویو کی جگہ ہمیں تمام یونیورسٹی کی پیمائش ہاتھوں سے کرنے کو کہا جاتا تو ہم شوق سے کر لیتے- انٹرویو کا مرحلہ جان لیوا، غضبناک، نا جانے کیا کیا لگ رہا تھا- انٹرویو نہ ہوا گویا پل صراط سے گزرنا ہو گیا، ہم تو فقط اتنا ہی کہ سکتے تھے- پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ
انٹرویو میں ہم نے غلط بات کو بھی سہی ثابت کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگایا آخر کیوں نہ لگاتے ہم بھی تو اپنے نام کے ایک ہیں- انٹرویو دے کر ہم جب اے تو سانسیں پھولی ہوئیں تھیں اور لمبے لمبے سانس خارج ہو رہے تھے- ہمارے دوستوں کو ہماری حالت ذرا دیکھ کر پرانی فلموں کے اداکار کا گمان ہو رہا تھا- اگلے دن فائنل لسٹ دیکھ کر ہمارا دل بلیوں کو تو ایک طرف رکھیے گھوڑوں کی طرح اچھل رہا تھا--- ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
کمپیوٹر ڈیپارٹمنٹ میں داخلہ لینے کے بعد ہم نے فخریہ انداز میں بھر پور مسکراہٹ کے ساتھ اپنے عزیز ترین دوست کی طرف دیکھا- یہ اور بات ہے اس کی طرف دیکھنے کے لئے ہمیں جھکنا پڑا- عقل مند کے لئے اشارہ ہی کافی ہے- کلاس شروع ہونے کے ٹھیک چار دنوں بعد ہم نے یونیورسٹی میں قدم رنجہ فرمایا- پہلے تو ہمیں لگا ہم حج جیسا اہم فریضہ اتنی سی عمر میں انجام دینے چلے ہیں- ہماری نگاہیں چاروں طرف سفید کپڑوں میں ملبوس حاجیوں کو دیکھ رہی تھیں- دل ہی دل میں لاحول پڑھی اپنے ڈیپارٹمنٹ میں پہنچے تو سکھ کا سانس لیا
ہم آخری کرسی پر بیٹھے، ایک وہی بچی تھی ہمارے لئے- ہم نے اس کو غنیمت سمجھا جھٹ سے ڈیرہ ڈال لیا- پانچ لیکچر آگے پیچھے ہوے ہمیں پہلے ہی دن اندازہ ہو گیا کہ اساتذہ کرام پنکچوئل ہیں کیوں کہ ایک لیکچر ختم ہونے کے فوراً بعد دوسرا ٹیچر کلاس میں اپنی موجودگی کا احساس دلا رہے ہوتے- الله الله کر کے ٣ بجے چھٹی ہوئی اور ہم نے کھلی فضا میں سانس لیا، دل سے صدا نکلی--- آگے آگے دیکھ ہوتا ہے کیا
بہرحال اساتذہ کرم کے پڑھانے کے انداز نے ہمیں بے حد متاثر کیا- ایک کرسی پر کچھ دنوں کے بعد ہم اپنی کلاس میں انتہائی اکتاتے ہوے براجمان تھے کہ اچانک کلاس میں شور ہوا- ہم نے لاحول پڑھ کر پیچھے مڑ کر دیکھا تو سب لڑکے اور لڑکیاں ہماری کلاس میں چلے آ رہے تھے ہم نے سکھ کا سانس لیا کیوں کہ ہم ڈر گئے تھے شاید بھارت نے پاکستان پر حملہ کر دیا ہو- معلوم ہوا کہ ہمارے فائنل کے انکل اور ہماری آنٹیاں آئی ہیں انہوں نے اپنے آنے کا مدعا بیان کیا وہ لٹیریری سوسائٹی کے لئے پیسے لینے ہے ہیں- خیر انکل اور آنٹیاں جھوٹ تھوڑا ہی بولتے ہیں ہم سب نے پیسے دئیے، وہ تو بعد میں معلوم ہوا انکل اور آنٹیاں جھوٹ بول سکتے ہیں- ہم نے ضبط سے کام لیتے ہوے یہ کڑوا گھونٹ پی لیا- دل نے البتہ بے اختیار ہو کر کہا---اس طرح تو ہوتا ہے اسطرح کے کاموں میں
مزید کچھ دنوں کے بعد ایک انکل ہماری کلاس میں آئے، وہ فائنل سے آئے تھے- ہمارا انٹروڈکشن کروانا چاہتے ہیں- اپنی کلاس میں لے جا کر ہم نے مڑ کر دیکھا اور دھک رہ گئے- سر سے پاؤں تک سفید ہی سفید تھے-ارے ------ آپ ہنس کیوں رہے ہیں- خدانخواستہ وہ ارے----رے-----نہیں نہیں وو انکل آٹے میں تھوڑے ہی گرے تھے دراصل ایک تو ان کا رنگ سفید اور سونے پہ سہاگہ کپڑے بھی سفید، کچھ شرماتے اور کچھ کچھ گھبراتے ہوۓ ان کی حالت دیکھتے ہوے مطلب یہ کہ ان کی تیاری کو دیکھتے ہوے ہمارے دل نے یہ کہا کہ--- ہو نہیں سکتا یہ ہو نہیں سکتا
سہی سمجھے کہ یہ ہو نہیں سکتا ہم انٹروڈکشن کے لئے ان کی کلاس میں جائیں- اس وقت پوری کلاس کی حالت یہ تھی- دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک کر پتا ہے- ہم سب نے مل کر اتفاق میں برکت ہے کے سنہری اصولوں کو اپناتے ہوے انٹروڈکشن کروانے کے مرحلے کو ترک کر دیا- اب ان گزرے لمحوں کو سوچ کر ہم تو فقط یہ ہی کہ سکتے ہیں بقول شاعر
آپ بیتی کہیں کہ, جگ بیتی
ہم سی لیکن کسی پہ کب بیتی